معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 152
عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى شَابٍّ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ ، فَقَالَ : كَيْفَ تَجِدُكَ؟ ، قَالَ : أَرْجُو اللَّهَ يَا رَسُولَ اللهِ ، وَإِنِّي أَخَافُ ذُنُوبِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لاَ يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبٍ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ إِلاَّ أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا يَرْجُو مِنْهُ وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ . (رواه الترمذى)
گناہوں کے انجام کا خوف اور رحمتِ خداوندی سے اُمید
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک جوان کے پاس اس کے آخری وقت میں جب کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا، تشریف لے گئے، اور آپ نے اُس سے دریافت فرمایا، کہ اس وقت تم اپنے کو کس حال میں پاتے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ (ﷺ)! میرا حال یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید بھی رکھتا ہوں، اور اسی کے ساتھ مجھے اپنے گناہوں کی سزا اور عذاب کا ڈر بھی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: یقین کرو جس دل میں امید اور خوف کی یہ دونوں کیفیتیں ایسے عالم میں (یعنی موت کے وقت میں) جمع ہوں، تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ ضرور عطا فرما دیں گے، جس کی اس کو اللہ کی رحمت سے امید ہے، اور اس عذاب سے اُس کو ضرور محفوظ رکھیں گے جس کا اس کے دل میں خوف و ڈر ہے۔ (جامع ترمذی)

تشریح
بے شک اللہ کا خوف اور اس کے عذاب اور اس کی پکڑ سے ڈرنا ہی نجات کی کُنجی ہے۔
Top