معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 156
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، : " اَسْرَفَ رَجُلٌ عَلَى نَفْسِهِ فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ اَوْصَى بَيْنَهُ إِذَا مَاتَ فَحَرِّقُوهُ ، ثُمَّ اذْرُوا نِصْفَهُ فِي الْبَرِّ وَنِصْفَهُ فِي الْبَحْرِ ، فَوَاللهِ لَئِنْ قَدَرَ اللهُ عَلَيْهِ لَيُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا لَا يُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ ، فَلَمَّا مَاتَ الرَّجُلُ فَعَلُوا مَا أَمَرَهُمْ ، فَأَمَرَ اللهُ الْبَرَّ فَجَمَعَ مَا فِيهِ ، وَأَمَرَ الْبَحْرَ فَجَمَعَ مَا فِيهِ ، ثُمَّ قَالَ : لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟ قَالَ : مِنْ خَشْيَتِكَ ، يَا رَبِّ وَأَنْتَ أَعْلَمُ ، فَغَفَرَ اللهُ لَهُ " (رواه البخارى ومسلم)
ایک گناہگار نے خوفِ خدا سے بہت بڑی جاہلانہ غلطی کی ، اور وہ بخشا گیا
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک شخص نے اپنے نفس پر بڑی زیادتی کی (اور بڑا ظلم کیا، یعنی غفلت سے اللہ کی نافرمانی والی زندگی گزارتا رہا) جب اس کی موت کا وقت آیا تو (اپنی پچھلی زندگی کو یاد کر کے اس پر اللہ کے خوف کا بہت زیادہ غلبہ ہوا، اور آخرت کے بُرے انجام سے وہ بہت ڈرا، یہاں تک کہ) اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی، کہ جب میں مر جاؤں، تو تم مجھے جلا کر راکھ کر دینا، پھر تم میری اس راکھ مین سے آدھی تو کہیں خشکی میں بکھیر دینا، اور آدھی کہیں دریا میں بہا دینا (تا کہ میرا کہیں پتہ نشان بھی نہ رہے، اور میں جزا سزا کے لئے دوبارہ زندہ نہ کیا جاؤں، اس نے کہا کہ میں ایسا گناہگار ہوں، کہ) اللہ کی قسم! اگر خدا نے مجھے پکڑ لیا، تو وہ مجھے ایسا سخت عذاب دے گا، جو دنیا جہان میں کسی کو بھی نہ دے گا۔ اس کے بعد جب وہ مر گیا، تو اس کے بیٹوں نے اس کی وصیت پر عمل کیا (جلا کر اُس کی راکھ کو کچھ ہوا میں اڑا دیا، اور کچھ دریا میں بہا دیا)۔ پھر اللہ کے حکم سے خشکی اور تری سے اس کے اجزاء جمع ہوئے (اور اس کو دوبارہ زندہ گیا گیا) پھر اس سے پوچھا گیا، تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے عرض کیا: اے میرے مالک! تو خوب جانتا ہے کہ تیرے ڈر سے ہی میں نے ایسا کیا تھا (رسول اللہ ﷺ نے یہ واقعہ بیان فرما کر ارشاد فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ نے اس بندہ کی بخشش کا فیصلہ فرما دیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے پہلے زمانہ کے جس شخص کا یہ واقعہ ذکر فرمایا ہے، یہ بیچارہ خدا کی شان اور اس کی صفات سے بھی ناواقف تھا، اور اعمال بھی اچھے نہ تھے، لیکن مرنے سے پہلے اس پر خدا کے خوف کی کیفیت اتنی غالب ہوئی کہ اس نے اپنے بیٹوں کو ایسی جاہلانہ وصیت کر دی، اور بے چارہ سمجھا کہ میری راکھ کے اس طررح خشکی اور تَری میں منتشر ہو جانے کے بعد میرے پھر زندہ ہونے کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔ لیکن اس جاہلانہ غلطی کا منشا اور سبب چونکہ خدا کا خوف اور اس کے عذاب کا ڈر تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔ حدیث کے لفظ " لَئِنْ قَدَرَ اللهُ عَلَيْهِ " کے بارے میں شارحین نے بہت کچھ علمی موشگافیاں کی ہیں، لیکن اس عاجز کے نزدیک سیدھی بات یہ ہے، کہ خدا کے خوف سے ڈرے سہمے ہوئے بے چارے ایک جاہل کی یہ جاہلانہ تعبیر تھی، اللہ تعالیٰ کے کرم نے اس کو بھی معاف کر دیا، مطلب بے چارہ کا وہی تھا جو ترجمہ میں لکھا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top