معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 164
عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ الرَّبِيْع الْأُسَيِّدِيِّ قَالَ : لَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ ، فَقَالَ : كَيْفَ أَنْتَ؟ يَا حَنْظَلَةُ قَالَ : قُلْتُ : نَافَقَ حَنْظَلَةُ ، قَالَ : سُبْحَانَ اللهِ مَا تَقُولُ؟ قَالَ : قُلْتُ : نَكُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ ، حَتَّى كَأَنَّا رَأْيُ عَيْنٍ ، فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالْأَوْلَادَ وَالضَّيْعَاتِ ، فَنَسِينَا كَثِيرًا ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : فَوَاللهِ إِنَّا لَنَلْقَى مِثْلَ هَذَا ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ ، حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قُلْتُ : نَافَقَ حَنْظَلَةُ ، يَا رَسُولَ اللهِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ « وَمَا ذَاكَ؟ » قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ نَكُونُ عِنْدَكَ ، تُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ ، حَتَّى كَأَنَّا رَأْيُ عَيْنٍ ، فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِكَ ، عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالْأَوْلَادَ وَالضَّيْعَاتِ ، نَسِينَا كَثِيرًا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنْ لَوْ تَدُومُونَ عَلَى مَا تَكُونُونَ عِنْدِي ، وَفِي الذِّكْرِ ، لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ عَلَى فُرُشِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ ، وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً » ثَلَاثَ مَرَّاتٍ . (رواه مسلم)
خوف و خشیت اور فکرِ آخرت کے لحاظ سے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کا حال
حضرت حنظلہ بن الربیع سے روایت ہے کہ ایک دن مجھے ابو بکرؓ ملے اور انہوں نے پوچھا: حنظلہ! کیا حال ہے؟ میں نے اُن سے کہا کہ حنظلہ تو منافق ہوگیا ہے، انہوں نے فرمایا: پاک ہے اللہ! تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے کہا، بات یہ ہے، کہ: ہم جب رسول اللہ ﷺ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ دوزخ اور جنت کا بیان فرما کے ہم کو نصیحت فرما کے ہم کو نصیحت فرماتے ہیں، تو ہمارا یہ حال ہو جاتا ہے کہ گویا ہم دوزخ اور جنت کو آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، پھر جب ہم آپ کی مجلس سے نکل کر گھر آتے ہیں، تو بیوی بچے، زمین اور کھیتی بارٰ کے کام ہم کو اپنی طرف متوجہ اور مشغول کر لیتے ہیں، اور پھر ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ ابوبکرؓ نے یہ سن کر فرمایا: کہ اس طرح کی حالت تو ہم کو بھی پیش آتی ہے۔ اس کے بعد میں نے اور ابو بکر دونوں چل دیئے، اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے (اپنا حال بیانن کرتے ہوئے) عرض کیا کہ یا رسول اللہ! حنظلہ تو منافق ہوگیا۔ آپ نے فرمایا: یہ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا، کہ: حالت یہ ہے کہ ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں، اور آپ دوزخ اور جنت کا بیان فرما کر ہم کو نصیحت فرماتے ہیں، تو ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا دوزخ اور جنت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، پھر جب ہم آپ کی مجلس سے نکل کر گھر آتے ہیں، تو بیوی بچے، اور کھیتی باڑی کے دھندے ہم کو اپنے میں مشغول کر لیتے ہیں، اور ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں، یہ سُن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی! جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر تمہارا حال ہمیشہ وہ رہے جو میرے پاس ہوتا ہے، اور تم دائماً ذکر میں مشغول رہو، تو فرشتے تمہارے بستروں پر اور راستے میں تم سے مصافحہ کیا کریں، لیکن اے حنظلہ (اللہ نے اس کا مکلف نہیں کیا ہے، بلکہ) بس اتنا ہی کافی ہے، کہ وقتاً فوقتاً یہ ہوتا رہے، یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی۔ (مسلم)

تشریح
حضرت حنظلہ کی اس روایت سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرامؓ میں آخرت اور دین کی فکر کس درجہ میں تھی، کہ اپنی حالت میں معمولی تغیر اور ذرا سا انحطاط دیکھ کر وہ اپنے پر نفاق کا شبہ کرنے لگتے تھی۔
Top