معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 176
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَى أُمَّتِي الْهَوَى ، وَطُولُ الْأَمَلِ ، فَأَمَّا الْهَوَى فَيَصُدُّ عَنِ الْحَقِّ ، وَأَمَّا طُولُ الْأَمَلِ فَيُنْسِي الْآخِرَةَ ، وَهَذِهِ الدُّنْيَا مُرْتَحِلَةٌ ذَاهِبَةٌ ، وَهَذِهِ الْآخِرَةُ مُرْتَحِلَةٌ قَادِمَةٌ ، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بَنُونَ ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَا تَكُونُوا مِنْ بَنِي الدُّنْيَا فَافْعَلُوا ، فَإِنَّكُمُ الْيَوْمَ فِي دَارِ الْعَمَلِ وَلَا حِسَابَ ، وَأَنْتُمْ غَدًا فِي دَارِ الْحِسَابِ وَلَا عَمَلَ " . (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
دنیا سے نہ لپٹو ، آخرت کے طالب بنو
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں اپنی امت پر جن بلاؤں کے آنے سے ڈرتا ہوں، ان میں سب سے زیادہ ڈر کی چیزیں هَوَى اور طُولُ الْأَمَلِ ہے، (هَوَى سے مراد یہاں یہ ہے کہ دین و مذہب کے بارے میں اپنے نفس کے رجحانات اور خیالات کی پیروی کی جائے اور طُولُ الْأَمَلِ یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے بارہ میں لمبی لمبی آرزوئیں دل میں پرورش کی جائیں، رسول اللہ ﷺ نے ان دو بیماریوں کو بہت زیادہ خوفناک بتلایا، اور آگے اس کی وجہ یہ ارشاد فرمائی) کہ هَوَى تو آدمی کو قبولِ حق سے مانع ہوتی ہے (یعنی اپنے نفسانی رجحانات اور خیالات کی پیروی کرنے والا قبول حق اور اتباع ہدایت سے محروم رہتا ہے) اور طُولُ الْأَمَلِ (یعنی لمبی لمبی آرزؤں میں دل پھنس جانا) آخرت کو بُھلا دیتا ہے اور اس کی فکر اور اس کے لیے تیاری سے غافل کر دیتا ہے، (اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ) یہ دنیا دمبدم چلی جارہی ہے، گزر رہی ہے (کہیں اس کا ٹھہراؤ اور مقام نہیں) اور آخرت (اُدھر سے) چل پڑی ہے، چلی آ رہی ہے اور ان دونوں کے بچے ہیں، (یعنی انسانوں میں کچھ وہ ہیں جو دنیا سے ایسی وابستگی رکھتے ہیں جیسی وابستگی بچوں کو اپنی ماں سے ہوتی ہے، اور کچھ وہ ہیں جن کی ایسی ہی وابستگی اور رغبت بجائے ددنیا کے آخرت سے ہے) پس اے لوگو! اگر تم کر سکت تو ایسا کرو کہ دنیا سے چمٹنے والے اس کے بچے نہ ہو (بلکہ اس دنیا کو دارالعمل سمجھو) تم اس وقت دارالعمل میں ہو (یہاں تمہیں صرف محنت اور کمائی کرنی ہے) اور یہاں حساب اور جزا سزا نہیں ہے، اور کل تم (یہاں سے کوچ کر کے) دار آخرت میں پہنچ جانے والے ہو، اور وہاں کوئی عمل نہ ہو گا (بلکہ یہاں کے اعمال کا حساب ہو گا، اور ہر شخص اپنے کئے کا بدلہ پائے گا)۔

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں امت کے بارے میں دو بڑی بیماریوں کا خوف اور خطرہ ظاہر فرمایا ہے، اور امت کو ان سے ڈرایا اور خبردار کیا ہے، ایک هَوَى اور دوسرے طُولُ الْأَمَلِ۔ غور سے دیکھا جائے، تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان ہی دو بیماریوں نے امت کے بہت بڑے حصے کو برباد کیا ہے، جن لوگوں میں خیالات اور نظریات کی گمراہیاں ہیں، وہ هَوَى کے مریض ہیں اور جن کے اعمال خراب ہیں وہ طولِ امل اور حبِ دنیا کے مرض میں گرفتار اور آخرت کی فکر اور تیاری سے غافل ہیں، اور علاج یہی ہے جو حضور ﷺ نے اس حدیث کے آخر میں بیان فرمایا۔ یعنی ان کے دلوں میں یہ یقین پیدا ہو کہ یہ دنیوی زندگی فانی اور صرف چند روزہ ہے، اور آخرت ہی کی زندگی اصلی زندگی ہے، اور وہی ہمارا اصل مقام ہے۔ جب یہ یقین دلوں میں پیدا ہو جائے گا تو خیالات اور اعمال دونوں کی اصلاح آسان ہو جائے گی۔
Top