معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 188
عَنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ مرسلاً قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَا أَوْحَى اللهُ إِلَيَّ أَنْ أَجْمَعَ الْمَالَ وَأَكُونَ مِنَ التَّاجِرِينَ وَلَكِنْ أَوْحَى إِلَيَّ أَنْ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ » (رواه فى شرح السنة)
حضور ﷺ کا ارشاد ، کہ مجھے تجارت اور دولت اندوزی کا حکم نہیں دیا گیا ہے
جُبیر بن نُفیر تابعی سے روایت ہے وہ بطریق ارسال (۱) رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں، کہ آپ نے ارشاد فرمایا: مجھے اللہ کی طرف سے اس کی وحی نہیں کی گئی، اور یہ حکم نہیں دیا گیا کہ میں مال و دولت جمع کروں، اور تجارت و سودا گری کو اپنا پیشہ اور مشغلہ بناؤں۔ بلکہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے، اور میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ اپنے رب کی تسبیح و تحمید میں مشغول رہ، اور ہو جا اللہ کے حضور میں جھکنے والوں اور گرنے والوں میں سے اور کئے جا بندگی اپنے پروردگار کی، موت آنے تک۔ (شرح السنہ)

تشریح
جن کو شریعت کے اصول و احکام کا کچھ علم ہے، وہ جانتے ہیں کہ تجارت اور اس کے ذریعہ دولت کمانا ناجائز نہیں ہے، اور شریعت کے احکام کا ایک بڑا حصہ تجارت وغیرہ مالی معاملات سے بھی متعلق ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے خود ان تاجروں کی بڑی بڑی فضیلتیں بیان فرمائی ہیں، جو امانت داری، راستبازی اور دیانت داری کے ساتھ تجارت کرتے ہوں، لیکن رسول اللہ ﷺ کا جو خاص مقام تھا اور جو کام اللہ تعالیٰ کو آپ سے لینا تھا، اس میں تجارت جیسے کسی جائز معاشی مشغلے میں بھی مشغول ہونے کی گنجائش نہ تھی، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو قناعت اور توکل کا وافر سرمایہ دے کر اس فکر سے فارغ بھی فرما دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ مجھے تو ان ہی کاموں میں اپنے کو لگانا ہے جن کا مجھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امر اور حکم ہے، میرا کام تجارت اور دولت اندوزی نہیں ہے۔ آپ کے امتیوں میں بھی اللہ کے جو بندے خالص متوکلانہ طرزِ زندگی کو اپنے لیے پسند کریں، اور اس راستے کے شدائد و مصائب پر صبر کی ہمت رکھتے ہوں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کی دولت ان کو میسر ہو، تو ان کے لیے بھی بلا شبہ یہی افضل ہے، لیکن کن کا یہ حال نہ ہو، ان کو کسی جائز معاشی مشغلہ کا اختیار کرنا خاص کر ہمارے اس زمانہ میں ضروری ہے۔
Top