معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 201
عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا لَيْسَتْ بِتَحْرِيمِ الحَلاَلِ وَلاَ إِضَاعَةِ الْمَالِ وَلَكِنَّ الزَّهَادَةَ فِي الدُّنْيَا أَنْ لاَ تَكُونَ بِمَا فِي يَدَيْكَ أَوْثَقَ مِمَّا فِي يَدِ اللهِ وَأَنْ تَكُونَ فِي ثَوَابِ الْمُصِيبَةِ إِذَا أَنْتَ أُصِبْتَ بِهَا أَرْغَبَ فِيهَا لَوْ أَنَّهَا أُبْقِيَتْ لَكَ . (رواه الترمذى وابن ماجه)
زہد کیا ہے ، اور کیا نہیں
حضرت ابوذر غفاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: دنیا کے بارے میں زہد اور اس کی طرف سے بے رغبتی (جو خاص ایمانی صفت ہے) وہ حلال کو اپنے اوپر حرام کرنے اور اپنے مال کو برباد کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ زہد کا اصل معیار اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس اور تمہارے ہاتھ میں ہو، اس سے زیادہ اعتماد اور بھروسہ تم کو اس پر ہو جو اللہ کے پاس اور اللہ کے قبضہ میں ہے، اور یہ کہ جب تم کو کوئی تکلیف اور ناخوش گواری پیش آئے تو اس کے اخروی ثواب کی چاہت اور رغبت تمہارے دل میں زیادہ ہو بہ نسبت اس خواہش کے کہ وہ تکلیف اور ناگواری کی بات تم کو پیش ہی نہ آتی۔ (ترمذی و ابن ماجہ)

تشریح
بہت سے لوگ ناواقفی سے زہد کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ آدمی دنیا کی سارنی نعمتوں، راحتوں اور لذتوں کو اپنے اوپر حرام کر لے، نہ کبھی لذیذ کھانا کھائے، نہ ٹھنڈا پانی پئیے، نہ اچھا کپڑا پہنے، نہ کبھی اچھے نرم بستر پر سوئے اور اگر کہیں سے کچھ آ جائے تو اس کو بھی اپنے پاس نہ رکھے، خواہ جلدی سے کہیں پھینک ہی دے، رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں اسی غلط خیالی کی اصلاح فرمائی ہے، آپ کے ارشاد کا حاصل یہ ے کہ زہد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے اپنی جن نعمتوں کا استعمال بندوں کے لئے حلال کیا ہے، آدمی ان کو اپنے اوپر حرام کر لے، اور اگر روپیہ پیسہ ہاتھ میں آئے تو اسے برباد کر دے، بلکہ زہد کا اصل معیار اور تقاضا یہ ہے کہ جو اس دنیا میں اپنے پاس اور اپنے ہاتھ میں ہو اس کو فانی اور ناپائیدار یقین کرتے ہوئے اس پر اعتماد اور بھروسہ نہ کرے، اور اس کے مقابلہ میں اللہ کے غیر فانی غیبی خزانوں پر اور اس کے فضل پر زیادہ اعتماد اور بھروسہ کرے، اور دوسرا معیار اور دوسری علامت زہد کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب کوئی تکلیف اور مصیبت بندہ کو پہنچ جائے تو اس کے اُخروی اجر و ثواب کی چاہت اور رغبت اس کے دل میں اس مصیبت اور تکلیف کے نہ پہنچنے کی آرزو سے زیادہ ہو یعنی بجائے اس کے کہ اس کا دل اس وقت یہ کہے کہ کاش یہ تکلیف مجھے نہ پہنچی ہوتی، اس کے دل کا احساس یہ ہو کہ آخرت میں مجھے اس تکلیف کا جو اجر و ثواب ملے گا، ان شاء اللہ وہ تکلیف نہ پہنچنے کے مقابلے میں میرے لیے ہزاروں درجہ بہتر ہو گا۔ اور ظاہر ہے کہ آدمی کا یہ حال جب ہی ہو سکتا ہے جب کہ اس کو عیش دنیا کے مقابلہ میں عیش آخرت کی زیادہ فکر ہو، اور یہی زہد کی اصل و اساس ہے۔ اس حدیث سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ بندوں کو اس دنیا میں عافیت اور راحت کے بجائے تکلیف اور مصیبت کی تمنا اور اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کرنی چاہئے! دوسری حدیثوں میں اس سے صریح ممانعت آئی ہے اور صحیح روایات میں ہے کہ آنحضرت ﷺ صحابہ کرامؓ کو ہمیشہ تاکید فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے عافیت اور خیریت ہی کی دعا اور استدعا کیا کرو (سلوا الله العافية) اور خود آپ کا معمول و دستور بھی یہی تھا، پس حضرت ابوذرؓ کی مندرجہ بالا حدیث کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ بندہ اس دنیا میں مصائب اور تکالیف کی دعا یا تمنا کرے، بلکہ اس کا مطلب و مدعا صرف یہ ہے کہ جب اللہ کے حکم سے کوئی مصیبت یا تکلیف بندہ کو پہنچ جائے تو پھر مومن کا مقام اور زہد کا تقاضا یہ ہے کہ اس مصیبت یا تکلیف کا جو اجر و ثواب آخرت میں ملنے ولا ہے وہ اس کو اس کے نہ پہنچنے سے زیادہ محبوب و مرغوب ہو ان دونوں باتوں کے فرق کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔
Top