معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 217
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَغْبِطَنَّ فَاجِرًا بِنِعْمَةٍ ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِىْ مَا هُوَ لَاقٍ بَعْدَ مَوْتِهِ اِنَّ لَهُ عِنْدَ اللهِ قَاتلًا لَا يَمُوتُ يَعْنِى النَّارَ" . (رواه البغوى فى شرح السنة)
کافروں ، فاجروں کی خوشحالی پر رشک نہ کرو
حضرت ابو رہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم کسی بدکار (کافر یا فاسق) پر کسی نعمت اور خوش حالی کی وجہ سے کبھی ہرگز رشک نہ کرنا، تم کو معلوم نہیں ہے کہ مرنے کے بعد اس پر کیا کیا مصیبتیں پڑنے والی ہیں، اللہ کے یہاں (یعنی آخرت میں) اُس کے لیے ایک ایسا قاتل ہے جس کو کبھی موت نہیں۔ (اس حدیث کو حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کرنے والے راوی عبداللہ بن ابی مریم کہتے ہیں کہ) رسول اللہ ﷺ کا مطلب اس قاتل سے دوزخ کی آگ ہے، (یعنی وہ بے چارا ہمیشہ ہمیشہ دوزخ کے عذاب میں رہنے والا ہے، پس ایسے شخص پر رشک کرنا کتنی بڑی حماقت اور گمراہی ہے)۔ (شرح السنۃ)

تشریح
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اللہ کا ایک مومن اور نیکو کار بندہ جو اس چند روزہ امتحانی دنیا میں تنگی اور تکلیف کی زندگی بسر کر رہا ہے، جب وہ کسی بدکار اور خدا سے تعلق نہ رکھنے والے آدمی کو دیکھتا ہے کہ وہ ٹھاٹھ کے ساتھ عیش و آرام کی زندگی گذار رہا ہے، تو شیطان اس کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈٖالتا ہے، اور کم سے کم یہ کہ دل میں اس کی حالت پر رشک ہی پیدا ہوتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی بڑی ناشکری ہے۔ پس رسول اللہ ﷺ نے تنبیہ فرمائی کہ جو لوگ ایمان اور عمل صالح کی نعمت سے محروم ہیں، اور خدا فراموشی اور بداعمالی کی وجہ سے آخرت کی دوامی زندگی میں عذاب نار میں گرفتار ہونے والے ہیں، اس دنیا میں ان کی چند روزہ خوش حالی اور عیش و راحت کو یکھ کر ہرگز کسی صاحب ایمان کو ان پر رشک بھی نہ آنا چاہئے، ان بے چاروں، کم بختی کے ماروں کا جو آخری انجام ہونے والا ہے، اور ان پر جو بپتا پڑنے والی ہے، اگر وہ معلوم ہو جائے تو ان کی اس خوش حالی اور خوش عیشی کی نوعیت بالکل ایسی نظر آئے گی جیسے کہ پھانسی پانے والے مجرم کو دو چار دن پہلے سے خاص سہولتیں دی جاتی ہین، اور کھانے پینے کے بارہ میں اس کی خواہش اور چاہت معلوم کر کے حتی الوسع اس کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے جن بندوں کو آخرت کے ان حقائق کا یقین نصیب فرمایا ہے جن کی اطلاع اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام نے دی ہے، ان کی نظر میں خدا کے مجرموں اور باغیوں کی دنیوی خوشحالی اور خوش عیشی کی نوعیت بالکل یہی ہے اس لئے ان کے دلوں میں ان کو دیکھ کر رشک نہیں پیدا ہوتا، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہم کو ایمان نصیب فرما کر ان بے چاروں کے بُرے حال اور بُرے انجام سے بچا لیا ہے۔ اس عاجش نے اللہ کے بعض بندوں کا یہ حال دیکھا ہے کہ خدا فراموشوں اہلِ دنیا کو دیکھ کر بے اختیار ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کی حمد و شکر کی یہ دعا جاری ہو جاتی ہے، جو رسول اللہ ﷺ کسی مصیبت زدہ کو دیکھ کر پڑھا کرتے تھے: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهِ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلًا ساری حمد و ستائش اس اللہ کے لیے ہے، جس نے مجھے اس مصیبت سے محفوظ رکھا جس میں اے بندے تو مبتلا کیا گیا ہے، اور اس نے مجھے اپنی بہت سی مخلوق پر برتری عطا فرمائی۔
Top