معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 218
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ : مَرَّ رَجُلٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لرَجُلٍ عِنْدَهُ جَالِسٍ : « مَا رَأْيُكَ فِي هَذَا » فَقَالَ : رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِ النَّاسِ ، هَذَا وَاللَّهِ حَرِيٌّ إِنْ خَطَبَ أَنْ يُنْكَحَ ، وَإِنْ شَفَعَ أَنْ يُشَفَّعَ ، قَالَ : فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ مَرَّ رَجُلٌ آخَرُ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَا رَأْيُكَ فِي هَذَا » فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَذَا رَجُلٌ مِنْ فُقَرَاءِ المُسْلِمِينَ ، هَذَا حَرِيٌّ إِنْ خَطَبَ أَنْ لاَ يُنْكَحَ ، وَإِنْ شَفَعَ أَنْ لاَ يُشَفَّعَ ، وَإِنْ قَالَ أَنْ لاَ يُسْمَعَ لِقَوْلِهِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « هَذَا خَيْرٌ مِنْ مِلْءِ الأَرْضِ مِثْلَ هَذَا » (رواه البخارى ومسلم)
کسی کی ظاہری خستہ حالی اور غربت کی وجہ سے اس کو حقیر نہ سمجھو
سہل بن سعد سے روایت ہے کہ ایک شخص () جو غالباً دولت مند اور معززین میں سے تھارسول اللہ ﷺ کے سامنے سے گزرا، تو آپ نے ایک صاحب سے جو آپ کے پاس اس وقت بیٹھے ہوئے تھے، پوچھا کہ: اس گزرنے والے شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے اور کیا اندازہ ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ: حضرت یہ بہت بڑے اور معزز آدمیوں میں سے ہے، یہ ایسی شان والا ہے کہ جس گھرانے کی بیٹی کے لئے نکاح کا پیغام دے تو منظور کر لیا جائے، اور نکاح کر دیا جائے، اور اگر کسی معاملے میں سفارش کر دے تو اس کی سفارش ضرور مانی جائے۔ سہل بن سعد کہتے ہیں، کہ یہ جواب سن کر رسول اللہ ﷺ خاموش ہو گئے، اور آپ نے کچھ نہیں فرمایا۔ پھر تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک اور اللہ کا بندہ گزرا، آپ نے ان ہی صاحب سے پھر پوچھا، کہ اس شخص کے بارہ میں تمہاری کیا رائے اور کیا اندازہ ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہیہ بے چارہ نادار اور مسکین مسلمانوں میں سے ہے یہ ایسا ہے کہ اگر کہیں نکاح کا پیغام دے تو اس کے ساتھ نکاح نہ کیا جائے، اور اگر کسی معاملہ میں سفارش کر ے تو اس کی سفارش نہ مانی جائے۔ اور کوئی بات کہنا چاہے تو اس کی بات بھی نہ سنی جائے۔ (اُن کا یہ جواب سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پہلے والے اس آدمی کے مثل اگر زمین بھر ہوں تو یہ ایک اکیلا فقیر و مسکین ان سے بہتر ہے۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
انسانوں کی عام حالت یہ ہے کہ دنیا کی دولت اور دنیا کی بڑائی ہی کو وہ اصل بڑائی، اور وزن اور قیمت کی چیز سمجھتے ہیں، اور اسی سے متاثر ہوتے ہیں، اور اللہ کے جو بندے اس سے خالی ہوں (اگرچہ ان کے پاس ایمان اور حسن عمل کی دولت کتنی ہی وافر ہو) عام طور سے اہل دنیا ان کو حقیر و ذلیل ہی سمجھتے ہیں، یہ حدیث دراصل اسی قلبی اور ذہنی بیماری کے علاج کا ایک نسخہ ہے، بہت ممکن ہے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس جو صاحب اس وقت بیٹھے ہوئے تھے (جن سے آپ اس گفتگو میں مخاطب رہے) ان میں بھی اس مرض کے کچھ جراثیم ہوں، اور آپ نے ان کی اصلاح کے لیے ہی یہ گفتگو فرمائی ہو۔ شارحین نے یہ بھی لکھا ہے، اور حدیث کے ظاہر الفاظ سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ دونوں گزرنے والے مسلمان ہی تھے، البتہ پہلے جو گزرے وہ دنیا کی دولت و وجاہت میں برتر تھے، اور دین کے لحاظ سے کمتر، اور بعد میں جو صاحب گزرنے، وہ دنیا کے لحاظ سے تو کمتر تھے، مگر دین اور تعلق باللہ میں برتر اور بلند تر۔ اسی فرق کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پہلے جیسے اگر اتنی کثیر تعداد میں ہوں کہ اللہ کی وسیع زمین ان سے بھر جائے تو بھی بعد میں گزرنے والا اللہ کا غریب و مسکین یہ ایک بندہ ان سب سے بہتر ہے۔ اللہ اکبر! دین اور تعلق باللہ کی عظمت و رفعت کا کیا ٹھکانا!۔
Top