معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 220
عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : رَأَى سَعْدٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ لَهُ فَضْلًا عَلَى مَنْ دُونَهُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « هَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِكُمْ » (رواه البخارى)
بہت سے غریب اور خستہ حال ایسے ہیں کہ ان کی برکت اور دعا سے رزق ملتا ہے
مصعب بن سعد سے روایت ہے کہ میرے والد سعد کو (اللہ تعالیٰ نے جو خاص صلاحیتیں بخشی تھیں، مثلاً شجاعت، سخاوت، فہم و فراست وغیرہ ان کی وجہ سے ان کا) کچھ خیال تھا کہ جو (غریب اور کمزور قسم کے مسلمان ان چیزوں میں) ان سے کمتر ہیں وہ ان کے مقابلہ میں فضیلت اور برتری رکھتے ہیں، پس رسول اللہ ﷺ نے (ان کے اس خیال اور حال کی اصلاح کے لیے) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم لوگوں کی جو مدد ہوتی ہے، اور تم کو جو نعمتیں ملتی ہیں، وہ (تمہاری صلاحیتوں اور قابلیتوں کی بنیاد پر نہیں ملتیں، بلکہ) تم میں جو بے چارے کمزور اور خستہ حال ہیں، ان کی برکت اور ان کی دعاؤں سے ملتی ہیں۔ (بخاری)

تشریح
حضرت سعد کا جو خیال تھا، چونکہ اس کی بنیاد ایک قسم کے کبر پر تھی، اس لئے اس کی اصلاح اور اس کے علاج کے لئے آنحضرت ﷺ نے ان کو بتلایا کہ تم جن مسکینوں کو اپنے سے کمتر اور اپنے کو ان سے برتر سمجھتے ہو، اللہ تعالیٰ ان ہی کے طفیل میں اور ان ہی کی دعاؤں سے تم کو وہ سب کچھ دیتا ہے جس سے تم یہاں بڑے بنے ہوئے ہو، آج بھی ہم جیسے لکھے پڑھے، جن کو اللہ تعالیٰ نے کچھ صلاحیتیں دے رکھی ہیں، اور دین کی کسی خدمت کی توفیق مل رہی ہے، عموماً اسی قسم کے کبر میں مبتلا ہیں۔ نَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا . ف۔۔۔ اسی حدیث کی نسائی کی روایت میں رسول اللہ ﷺ کے الفاظ میں اس طرح ہیں: اِنَّمَا يَنْصُرُ اللهُ هَذِهِ الْاُمَّةَ بِضَعِيْفِهِمْ بِدَعْوَتِهِمْ وَصَلَوٰتِهِمْ وَإِخْلَاصِهِمْ . ظاہر ہے کہ اس روایت کے الفاظ اداء مطلب میں صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ سے زیادہ واضح ہیں۔
Top