معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 225
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ بَنِي عُذْرَةَ ثََلَاثَةً ، أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمُوا ، قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ يَكْفِينِِيهِمْ؟ » قَالَ طَلْحَةُ : أَنَا . قَالَ : فَكَانُوا عِنْدَ طَلْحَةَ ، فَبَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْثًا فَخَرَجَ فيه أَحَدُهُمْ فَاسْتُشْهِدَ ، ثُمَّ بَعَثَ بَعْثًا فَخَرَجَ فِيهِ الْآخَرُ فَاسْتُشْهِدَ ، ثُمَّ مَاتَ الثَّالِثُ عَلَى فِرَاشِهِ ، قَالَ قَالَ طَلْحَةُ : فَرَأَيْتُ هَؤُلاءِ الثَّلاثَةَ فِي الْجَنَّةِ ، وَرَأَيْتُ الْمَيِّتَ عَلَى فِرَاشِهِ أَمَامَهُمْ ، وَالَّذِي اسْتُشْهِدَ اٰخَراً يَلِيهِ ، وَأَوَّلُهُمْ يَلِيْهِ فَدَخَلَنِي مِنْ ذَلِكَ ، فَذَكَرْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ فَقَالَ : « وَمَا أَنْكَرْتَ مِنْ ذَلِكَ لَيْسَ أَحَدٌ أَفْضَلَ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ مُؤْمِنٍ يُعَمَّرُ فِي الْإِسْلامِ لِتَسْبِيحِهِ وَتَكْبِيرِهِ وَتَهْلِيلِهِ » (رواه احمد)
اگر حُسنِ عمل کی توفیق ہو ، تو زندگی بڑی نعمت ہے
عبداللہ بن شداد سے روایت ہے کہ قبیلہ بنی عُذرہ میں سے تین آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام لائے (اور حضور ﷺ کی خدمت میں قیام کا ارادہ کیا) تو آپ نے (صحابہ کرامؓ سے) فرمایا کہ ان نو مسلم مسافروں کی خبر گیری میری طرف سے کون اپنے ذمہ لے سکتا ہے؟ طلحہ نے عرض کیا کہ میں اپنے ذمہ لیتا ہوں۔ چنانچہ یہ تینوں ان کے پاس رہنے لگے، اسی اثنا میں رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر کسی جگہ کے لئے روانہ فرمایا، تو ان تینوں صاحبوں میں سے ایک اس لشکر میں چلے گئے، اور وہاں شہید ہو گئے، پھر آپ نے ایک اور لشکر روانہ فرمایا تو ایک دوسرے ساتھی اس میں چلے گئے، اور وہ بھی جا کر شہید ہو گئے، پھر (کچھ دنوں بعد) ان میں سے تیسرے جو باقی بچے تھے ان کا انتقال بستر ہی پر ہوگیا۔ (حدیث کے راوی عبداللہ بن شداد) کہتے ہیں کہ طلحہ نے ذکر کیا کہ میں نے خواب میں ان تینوں ساتھیوں کو جنت میں دیکھا کہ جو صاحب سب سے آخر میں اپنے بستر پر طبعی موت مرے، وہ سب سے آگے ہیں، اور ان کے قریب ان کے وہ ساتھی ہیں جو دوسرے نمبر شہید ہوئے تھے، اور ان کے قریب ان کے وہ ساتھی ہیں جو پہلے شہید ہوئے تھے، اس خواب سے میرے دل میں شبہ اور خلجان پیدا ہوا (کیونکہ میرا خیال تھا کہ شہید ہونے والے ان دو ساتھیوں کا درجہ اس تیسرے ساتھی سے بلند ہو گا جس کا انتقال بستر پر طبعی موت سے ہوا) پس میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس خواب اور اپنے اس تاثر اور خلجان کا ذکر کیا، آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس میں تم کو کیا بات اوپری اور غلط معلوم ہوتی ہے، (تم نے ان کے درجات کی جو ترتیب دیکھی ہے وہی ہونا چاہئے اور جو تیسرا ساتھی اپنے دو ساتھیوں کی شہادت کے بعد بھی کچھ عرصہ زندہ رہا، اور نمازیں پڑھتا رہا، اور اللہ کا ذکر کرتا رہا، اسی کو سب سے آگے اور بلند تر ہونا چاہئے کیوں کہ) اللہ کے نزدیک اس مومن سے کوئی افضل نہیں، جس کو ایمان اور اسلام کے ساتھ عمر دراز ملے، جس میں وہ اللہ کی تسبیح (سبحان اللہ کا ذکر) تکبیر (اللہ اکبر کا ذکر) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ کا ذخر) کرے۔ (مسند احمد)

تشریح
اس سے پہلی حدیث کی تشریح میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے اسی سے اس حدیث کی بھی تشریح ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر سمجھ دے تو ان دونوں حدیثوں میں ان جذباتی اور باتونی لوگوں کے لئے بڑا سبق ہے جو جہاد اور شہادت کی صرف باتوں اور جھوٹی تمناؤں میں اپنا وقت گذارتے ہیں، حالانکہ جہاد و شہادت کا کوئی میدان ان کے سامنے نہیں ہوتا، اور نماز، روزہ، ذکر و تلاوت وغیرہ اعمالِ خیر کے ذریعہ اعلیٰ سے اعلیٰ دینی ترقیوں کا جو موقعہ اللہ کی طرف سے ان کو ہر وقت ملا ہوا ہے وہ اس کی قدر نہیں کرتے، اور ان چیزوں کو معمولی اور ادنیٰ درجہ کی چیزیں سمجھ کر ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ بعض اوقات تو ان اعمالِ خیر کو طنز کا نشانہ بنا کر اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں۔ وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا .
Top