معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 226
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ : قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اتَّقِ اللهِ حَيْثُمَا كُنْتَ ، وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الحَسَنَةَ تَمْحُهَا ، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ . (رواه احمد والترمذى والدارمى)
رسول اللہ ﷺ کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں
حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: تم جہاں اور جس حال میں ہو (خلوت میں ہو یا جلوت میں، آرام میں ہو، یا تکلیف میں) خدا سے ڈرتے رہو (اور تقویٰ تمہارا شعار رہے) اور ہر برائی کے پیچھے نیکی کرو، وہ اس کو مٹا دے گی، اور اللہ کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ (مسند احمد، جامع ترمذی، دارمی)

تشریح
تقوے کی اصل خدا کا خوف اور اس کے مواخذہ اور محاسبہ کی فکر ہے، اور یہ ایک باطنی کیفیت ہے اور اس کا ظہور ظاہری زندگی میں اس طرح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر و احکام کی اطاعت کی جائے، اور منہیات اور معاصی سے بچا جائے۔ لیکن انسان کی سرشت اور اس دنیا میں اس کا ماحول ایسا ہے کہ اس خوف و فکر (یعنی تقویٰ) کے باوجود اس سے غلطیاں اور خطائیں سرزد ہو جاتی ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اس کے تدارک کے لئے ارشاد فرمایا کہ جب کوئ غلطی اور برائی ہو جائے تو اس کے بعد کوئی نیکی ضرور کرو، نیکی کا نور اس برائی کی ظلمت کو ختم کر دے گا، اور مٹا دے گا۔ قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے: إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ (نیکیاں برائی کو ختم کر دیتی ہیں)۔ رسول اللہ ﷺ نے تیسری نصیحت اس حدیث میں حضرت ابو رؓ کو یہ فرمائی کہ لوگوں کے ساتھ تمہارا برتاؤ حسنِ اخلاق کا ہو۔ معلوم ہوا کہ تقویٰ اور تکثیر حسنات کے ذریعہ گناہوں کی تطہیر کے بعد بھی کامیابی اور رضاء الہی حاصل ہونے کے لئے بندوں کے ساتھ حسن اخلاق کا برتاؤ بھی ضروری ہے۔
Top