معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 230
عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَخْلَصَ اللهُ قَلْبَهُ لِلْإِيمَانِ ، وَجَعَلَ قَلْبَهُ سَلِيمًا ، وَلِسَانَهُ صَادِقًا ، وَنَفْسَهُ مُطْمَئِنَّةً ، وَخَلِيقَتَهُ مُسْتَقِيمَةً ، وَجَعَلَ أُذُنَهُ مُسْتَمِعَةً ، وَعَيْنَهُ نَاظِرَةً فَأَمَّا الْأُذُنُ فَقِمْعٌ ، وَأَمَّا الْعَيْنُ فَمُقِرَّةٌ لِمَا يُوعِي الْقَلْبُ ، وَقَدْ أَفْلَحَ مَنْ جَعَلَ اللهُ قَلْبَهُ وَاعِيًا " (رواه احمد البيهقى فى شعب الايمان)
رسول اللہ ﷺ کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں
حضرت ابوذر غفاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص کامیاب اور بامراد ہوا جس کے دل کو اللہ نے ایمان کے لیے خالص کر دیا اور اس کے قلب کو صحیح و سالم بنا دیا (یعنی جس کے دل کو ایسا صاف ایمان و یقین نصیب فرمایا جس میں شک یا نفاق کی کوئی آمیزش اور کوئی گنجائش نہیں، اور حسد و کینہ جیسے باطنی امراض سے بھی اس کے دل کو پاک کر کے سلیم بنایا) اور اس کی زبان کو سچائی اور اس کے نفس کو اطمینان عطا فرمایا (یعنی اس کے نفس کو ایسا کر دیا کہ اللہ کی یاد سے اور اس کی مرضیات سے اس کو چین و اطمینان ملتا ہے) اور اس کی طبیعت کو سیدھا اور درست کر دیا (کہ وہ برائی کی طرف نہیں چلتی) اور اس کے کان کو سننے والا اور آنکھ کو دیکھنے والا بنا دیا (کہ وہ حق باتوں کو اور اللہ کی نشانیوں کو سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں اور نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہیں) پس کان تو مثل قیف کے ہے (کہ باتیں اس کے راستے سے دل میں اس طرح جاتی ہیں جس طرح بوتل یا شیشی میں کوئی چیز قیف کے ذریعہ جاتی ہے) اور آنکھ پہنچانے والی اور ٹھہرانے والی ہے ان چیزوں کو جو وہ قلب کو سونپتی ہے، اور بامراد اور کامیاب ہوا وہ شخص جس کے دل کو بنا دیا اللہ نے یاد رکھنے والا۔ (مسند احمد، شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
حدیث کے آخری حصہ میں کان اور آنکھ کے متعلق جو بات فرمائی گئی ہے " فَأَمَّا الْأُذُنُ فَقِمْعٌ الخ " جس کے ترجمہ پر امتیاز کے لئے خط لگا دیا گیا ہے، اس سے وجود انسانی میں کان اور آنکھ کی یہ امتیازی اہمیت ظاہر کرنا مقصود ہے کہ دل جو انسانی اعضاء میں گویا بادشاہ اور فرمانروا کی حیثیت رکھتا ہے، اس میں جو چیزیں پہنچتی ہیں اور اس کو متاثر کرتی ہیں وہ عموماً کان اور آنکھ ہی کے ذریعہ پہنچتی ہیں، اس لئے انسان کی فلاح و سعادت اس پر موقوف ہے کہ اللہ اس کے کان کو شنوا، اور اس کی آنکھوں کو بینا بنا دے۔ اور سب سے آخر میں فرمایا کہ " فلاح یاب اور بامراد ہوا وہ انسان جس کے دل کو اللہ نے یاد رکھنے والا بنا دیا "۔ مطلب یہ ہے کہ فلاح و سعادت تک پہنچانے والی جو باتیں کان یا آنکھ کے ذریعہ دل میں پہنچیں ان سے بھی منزل سعادت تک جب ہی پہنچا جا سکتا ہے جب کہ دل ان کو محفوظ رکھے اور ان سے برابر کام لیتا رہے، اس لئے انسان کی سعادت اور خوش بختی کی آخری اور سب سے اہم شرط یہ ہے کہ قلب اپنا فریضہ اور وظیفہ ٹھیک ٹھیک انجام دیتا رہے۔ قرآن مجید میں بھی جا بجا انسان کی ان تینوں قوتوں (سمع، بصر، قلب) کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ گویا انسان کی ہدایت اور نجات کا دار و مدار انہی تینوں کی سلامتی اور راست روی پر ہے۔
Top