معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 233
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ القِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ ، عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَا أَبْلاَهُ ، وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَا أَنْفَقَهُ ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ . (رواه الترمذى)
رسول اللہ ﷺ کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے روای ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن (جب حساب کے لئے بارگاہِ خداوندی میں پیشی ہوگی، تو) آدمی کے پاؤں سرک نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کا سوال نہ کر لیا جائے گا۔ ایک اس کی پوری زندگی اور عمر کے بارے میں کہ کن کاموں میں اس کو ختم کیا۔ اور دوسرا خصوصیت سے اس کی جوانی (اور جوانی کی قوتوں) کے بارے میں کہ کن مشاغل میں جوانی اور اس کی قوتوں کو بوسیدہ اور پرانا کیا، اور تیسرا اور چوتھا مال و دولت کے بارے میں کہ کہاں سے اور کن طریقوں اور راستوں سے اس کو حاصل کیا تھا اور کن کاموں اور کن راہوں میں اس کو صرف کیا۔ اور پانچواں سوال یہ ہو گا کہ جو کچھ معلوم تھا اس کے بارے میں کیا عمل کیا؟ (جامع ترمذی)

تشریح
ہر شخص اپنی زندگی، اپنی جوانی، اپنی آمد و خرچ اور اپنے علم و فمل کا دنیا ہی میں محاسبہ کرے اور ذرا سوچے کہ دربارِ خداوندی میں کھڑا کر کے جب مجھ سے سر محشر یہ سوالات کئے جائیں گے تو میرا حال اور انجام کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور اپنے کرم سے آسان فرمائے ورنہ امتحان اپنی نوعیت کے لحاظ سے یقیناً بڑا سخت ہے، اور صرف وہی خوش نصیب بندے اس دن رسوائی سے بچ سکیں گے جو اس گھڑی کے آنے اور اس امتحان گاہ میں پہنچنے سے پہلے اسی دنیا میں تیاری کر لیں، اور زندگی اس طرح گذاریں کہ اس محاسبہ اور اس امتحان میں کامیاب اور سرخرو ہو سکیں۔
Top