معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 234
عَنْ أَبِي جُرَيٍّ جَابِرِ بْنِ سُلَيْمٍ ، قَالَ : اَتَيْتُ الْمَدِيْنَةَ فَرَأَيْتُ رَجُلًا يَصْدُرُ النَّاسُ عَنْ رَأْيِهِ ، لَا يَقُولُ شَيْئًا إِلَّا صَدَرُوْا عَنْهُ ، قُلْتُ : مَنْ هَذَا؟ قَالُوا : هَذَا رَسُولُ اللَّهِ ، قَالَ قُلْتُ : عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَرَّتَيْنِ ، قَالَ : " لَا تَقُلْ : عَلَيْكَ السَّلَامُ ، فَإِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ ، قُلْ : السَّلَامُ عَلَيْكَ " قُلْتُ : أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَ : « أَنَا رَسُولُ اللَّهِ الَّذِي إِنْ أَصَابَكَ ضُرٌّ فَدَعَوْتَهُ كَشَفَهُ عَنْكَ ، وَإِنْ أَصَابَكَ عَامُ سَنَةٍ فَدَعَوْتَهُ ، أَنْبَتَهَا لَكَ ، وَإِذَا كُنْتَ بِأَرْضٍ قَفْرٍ أَوْ فَلَاةٍ فَضَلَّتْ رَاحِلَتُكَ فَدَعَوْتَهُ ، رَدَّهَا عَلَيْكَ » ، قُلْتُ : اعْهَدْ إِلَيَّ ، قَالَ : « لَا تَسُبَّنَّ أَحَدًا » قَالَ : فَمَا سَبَبْتُ بَعْدَهُ حُرًّا ، وَلَا عَبْدًا ، وَلَا بَعِيرًا ، وَلَا شَاةً ، قَالَ : « وَلَا تُحَقِّرَنَّ شَيْئًا مِنَ الْمَعْرُوفِ ، وَأَنْ تُكَلِّمَ أَخَاكَ وَأَنْتَ مُنْبَسِطٌ إِلَيْهِ وَجْهُكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنَ الْمَعْرُوفِ ، وَارْفَعْ إِزَارَكَ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ ، فَإِنْ أَبَيْتَ فَإِلَى الْكَعْبَيْنِ ، وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ ، فَإِنَّهَا مِنَ المَخِيلَةِ ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ ، وَإِنِ امْرُؤٌ شَتَمَكَ وَعَيَّرَكَ بِمَا يَعْلَمُ فِيكَ ، فَلَا تُعَيِّرْهُ بِمَا تَعْلَمُ فِيهِ ، فَإِنَّمَا وَبَالُ ذَلِكَ عَلَيْهِ » (رواه ابو داؤد)
رسول اللہ ﷺ کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں
ابو جری جابر بن سلیم سے روایت ہے کہ میں مدینہ پہنچا (اور میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں اس وقت کچھ جانتا نہیں تھا) میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ لوگ اس کے پاس طالب بن کر حاضر ہوتے ہیں اور وہ ان کو جو کچھ بتا دیتا ہے اس کو قبول کر کے چلے جاتے ہیں، جو کچھ بھی اس کی زبان سے نکلتا ہے لوگ اس کو دل و جان سے مانتے اور تسلیم کرتے ہیں۔ میں نے پوچھا یہ لون ہیں؟ لوگوں نے مجھے بتایا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور میں نے عرض کیا " عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ " یہ میں نے دو دفعہ عرض کیا، آپ نے فرمایا " عَلَيْكَ السَّلَامُ " نہ کہو، یہ مُردوں کا سلام ہے۔ (یعنی اہلِ جاہلیت اس طرح مُردوں کو سلام کیا کرتے تھے، بجائے اس کے) " السَّلَامُ عَلَيْكَ " کہو۔ میں نے عرض کیا: آپ اللہ کے رسول ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں! میں رسول ہوں اس اللہ کا جس کی شان یہ ہے کہ اگر تمہیں کوئی دُکھ اور تکلیف ہو، اور تم اس سے دُعاو کرو تو وہ تمہارے دکھ کو دور کر دے، اور اگر تم پر قحط سالی کی مصیبت آ جائے اور تم اس سے دعا کرو تو تمہارے لئے وہ زمین سے پیداوار پیدا کر دے، اور جب تم کسی جنگل بیابان میں اور لق و دق میدان میں ہو، تمہاری سواری کا جانور گم ہو جائے، اور تم اس سے دعا کرو، تو وہ تمہاری سواری کے اس جانور کو تمہارے پاس پہنچا دے۔ (حدیث کے راوی جابر بن سُلیم کہتے ہیں، کہ) میں نے آپ سے عرض کیا کہ مجھے کچھ نصیحت ار وصیت فرمائیے! آپ نے ارشاد فرمایا (تمہیں میری پہلی نصیحت یہ ہے کہ) تم کبھی کسی کو گالی نہ دینا، جابر بن سلیم کہتے ہیں اس کے بعد سے میں نے کسی کو بھی گالی نہ دی، اور نہ کسی آزاد کو نہ غلام کو، نہ اونٹ بکری جیسے کسی جانور کو (اس کے بعد سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے مجھے حضور ﷺ نے یہ نصیحتیں بھی فرمائیں) کسی احسان کو تم حقیر نہ سمجھو، اور تم اپنے بھائی سے شگفتہ روئی کے ساتھ بات کیا کرو، یہ بھی ایک طرح کا احسان اور حسن سلوک ہے، اور اپنا تہبند آدھی پنڈلیوں تک اونچا رکھو، اگر اتنا اونچا رکھنا منظور نہ ہو، تو کم سے کم ٹخنوں تک اونچا رکھو، اور تہبند کو زیادہ نیچے لٹکانے سے پرہیز کرو، کیونکہ یہ تکبر کی بات ہے، اور اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں ہے، اور اگر کوئی تمہیں گالی دے اور تمہاری کسی ایسی بُری بات کاذکر کر کے تم کو عار دلائے جو تمہارے بارے میں جانتا ہو تو تم ایسا نہ کرو، اس صورت میں اس کی اس ساری زبان درازی کا پورا وبال اسی پر ہو گا۔ (سنن ابی داؤد)
Top