معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 236
عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : أَمَرَنِي خَلِيلِي بِسَبْعٍ : "أَمَرَنِي بِحُبِّ الْمَسَاكِينِ ، وَالدُّنُوِّ مِنْهُمْ ، وَأَمَرَنِي أَنْ أَنْظُرَ إِلَى مَنْ هُوَ دُونِي ، وَلَا أَنْظُرَ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقِي ، وَأَمَرَنِي أَنْ أَصِلَ الرَّحِمَ وَإِنْ أَدْبَرَتْ ، وَأَمَرَنِي أَنْ لَا أَسْأَلَ أَحَدًا شَيْئًا ، وَأَمَرَنِي أَنْ أَقُولَ بِالْحَقِّ وَإِنْ كَانَ مُرًّا ، وَأَمَرَنِي أَنْ لَا أَخَافَ فِي اللهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ ، وَأَمَرَنِي أَنْ أُكْثِرَ مِنْ قَوْلِ : لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ ، فَإِنَّهُنَّ مِنْ كَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ " (رواه احمد)
رسول اللہ ﷺ کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں
حضرت ابوذر غفاری ؓ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا کہ مجھے میرے محبوب دوست (ﷺ) نے سات باتوں کا خاص طور سے حکم فرمایا ہے۔ مجھے آپ نے حکم فرمایا ہے۔ مساکین اور غرباء سے محبت رکھنے کا اور ان سے قریب رہنے کا۔ اور آپ نے حکم فرمایا ہے کہ دنیا میں ان لوگوں پر نظر رکھو جو مجھ سے نچلے درجے کے ہیں (یعنی جن کے پاس دنیوی زندگی کا سامان مجھ سے بھی کم ہے) اور ان پر نظر نہکروں جو مجھ سے اوپر کے درجہ کے ہیں (یعنی جن کو دنیوی زندگی کا سامان مجھ سے زیادہ دیا گیا ہے، اور بعض دوسری احادیث میں ہے کہ ایسا کرنے سے بندہ میں صبر و شکر کی صفت پیدا ہوتی ہے، اور یہ ظاہر بھی ہے) آگے حضرت ابوذر فرماتے ہیں، کہ اور مجھے آپ نے حکم دیا ہے کہ میں اپنے اہل قرابت کے ساتھ صلہ رحمی کروں، اور قریبتی رشتہ کو جوڑوں (یعنی ان کے ساتھ وہ معاملہ اور سلوک کرتا رہوں جو اپنے عزیزوں قریبوں کے ساتھ کرنا چاہئے) اگرچہ وہ میرے ساتھ ایسا نہ کریں۔ اور آپ نے مجھے حکم دیا کہ کسی آدمی سے کوئی چیز نہ مانگوں (یعنی اپنی ہر حاجت کے لئے اللہ ہی کے سامنے ہاتھ پھیلاؤں، اور اس کے سوا کسی کے در کا سائل نہ بنوں)۔ اور آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں ہر موقع پر حق بات کہوں، اگرچہ وہ لوگوں کے لئے کڑوی ہو (اور ان کی خواہشات اور اغراض کے خلاف ہونے کی وجہ سے انہیں بری لگے)۔ اور آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں اللہ کے راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈروں (یعنی دنیا والے اگرچہ مجھے برا کہیں لیکن میں وہی کہوں اور وہی کروں جو اللہ کا حکم ہو، اور جس سے اللہ راضی ہو، اور کسی کے برا بھلا کہنے کی مطلق پرواہ نہ کروں) اور آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں کلمہ " لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ " کثرت سے پڑھا کروں، کیوں کہ یہ سب باتیں اس خزانے سے ہیں جو عرش کے نیچے ہے (یعنی یہ اس خزانے کے قیمتی جواہرات ہیں جو عرشِ الہی کے نیچے ہے، اور جن کو اللہ ہی جن بندوں کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، کسی اور کی وہاں تک دسترس نہیں)۔ (مسند احمد)

تشریح
حدیث کی ضروی تشریح ترجمہ ہی کے ضمن میں ہو چکی ہے، یہاں صرف ایک بات یہ قابل ذکر ہے کہ کلمہ " لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ " جس کی کثرت کی اس حدیث میں تاکید فرمائی گئی ہے، اس کی تشریح خود رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث میں یہ مروی ہے کہ " گناہوں سے بچاؤ، اور نیکی کرنے کی قوت، بس اللہ ہی کی توفیق سے بندہ کو ملتی ہے " یعنی اللہ کا فضل اور اس کی توفیق اگر شامل نہ ہو، تو بندہ نہ گناہوں سے بچ سکتا ہے، اور نہ نیک اعمال کر سکتا ہے، پس بندے کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ اللہ سے توفیق اور اس کا فضل مانگتا رہے، اور معصیات سے بچنا، اور نیک اعمال کا کرنا اگر نصیب ہو، تو اس کو اپنا کمال نہ سمجھے، بلکہ اللہ کا فضل و کرم جانے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ کلمہ جس کی حقیقت کو بیان کرتا ہے، اگر اس کے دھیان اور استحضار کے ساتھ کثرت سے اس کا ورد کیا جائے، تو بندہ کی اصلاح کے لئے اکسیر ہے، اور اس کی بڑی تاثیر ہے، مشائخ طریقت میں سے خصوصیت کے ساتھ حضرات شاذلیہ طالبین و سالکین کو اسی کلمہ کی کثرت کی زیادہ تلقین کرتے ہیں۔
Top