معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 239
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَنَّهُ خَرَجَ يَوْمًا إِلَى مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَوَجَدَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَاعِدًا عِنْدَ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِي؟ فَقَالَ : مَا يُبْكِيكَ؟ قَالَ : يُبْكِينِي شَيْءٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : « إِنَّ يَسِيرَ الرِّيَاءِ شِرْكٌ ، وَإِنَّ مَنْ عَادَى لِلَّهِ وَلِيًّا ، فَقَدْ بَارَزَ اللَّهَ بِالْمُحَارَبَةِ ، إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْأَبْرَارَ الْأَتْقِيَاءَ الْأَخْفِيَاءَ ، الَّذِينَ إِذَا غَابُوا لَمْ يُفْتَقَدُوا ، وَإِنْ حَضَرُوا لَمْ يُدْعَوْا ، وَلَمْ يُعْرَفُوا قُلُوبُهُمْ مَصَابِيحُ الْهُدَى ، يَخْرُجُونَ مِنْ كُلِّ غَبْرَاءَ مُظْلِمَةٍ » (رواه ابن ماجه والبيهقى فى شعب الايمان)
رسول اللہ ﷺ کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک دن مسجد نبوی ﷺ میں آئے، وہاں انہوں نے معاذ بن جبل ؓ کو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کے پاس بیٹھے رو رہے ہین، حضرت عمرؓ نے ان سے دریافت کیا، تمہارے اس رونے کا سبب کیا ہے؟ انہیوں نے کہا، کہ مجھے ایک بات رُلا رہی ہے جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی میں نے آپ سے سنا تھا، آپ ﷺ فرماتے تھے، کہ تھوڑا سا ریا بھی شرک ہے، اور جس شخص نے اللہ کے کسی دوست سے دشمنی کی تو اس نے خود اللہ کو جنگ کی دعوت دی اور بے شک اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے ان نیکو کار متقی بندوں سے جو ایسے چھپے ہوئے اور نامعروف ہوں کہ جب غائب ہوں تو کوئی ان کو تلاش نہ کرے، اور حاضر ہوں تو کوئی ان کو دعوت دے کر اپنے پاس نہ بُلائے، ان کے دل ہدایت کے روشن چراغ، نکل جاتے ہیں کالی آندھیوں میں سے۔ (سنن ابن ماجہ و شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
حضرت معاذؓ کی یہ حدیث جس کو یاد کر کے وہ رو رہے تھے، چنداجزاء پر مشتمل ہے۔ پہلی بات یہ تھی کہ حضور ﷺ نے فرمایا، کہ تھوڑاسا ریابھی شرک ہے، درحقیقت تنہا یہی بات ان بندوں کو رلانے کے لیے کافی ہے جن کے دلوں میں خدا کا خوف ہو، اور وہ شرک کی شناعت و قباحت کو بھی جانتے ہوں۔ کیوں کہ خفی اور باریک قسم کے ریا سے بچنا اُن بندوں کے لیے بھی بہت مشکل ہے جو اُس سے بچنے کی فکر اورکوشش بھی کرتے ہیں، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اللہ کا بندہ اپنے عمل کو ریا وغیرہ سے پاک رکھنے کی پوری کوشش کرتا ہے، لیکن پھر اُس کو محسوس ہوتا ہے کہ ریا کی کچھ لگاوٹ آ ہی گئی، عارفین کا یہعام حال ہے کہ وہ عمل کرتے ہیں اور بعد میں یہ محسوس کر کے روتے ہیں کہ جس اخلاص کے ساتھ عمل ہونا چاہئے وہ نصیب نہیں ہوا۔ غالباً حضرت معاذ کے اس رونے میں بھی بھی اس احساس کو دخل تھا۔ حضرت معاذ کا بیان ہے، کہ ریا کے متعلق اس انتباہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے دوسری مرتبہ تنبیہ یہ فرمائی تھی کہ جن بندوں کا اللہ سے خاص تعلق ہو اُن کے بارے میں بہت محتاط رہنا چاہئے، جو کوئی اُن خاصانِ خدا سے دشمنی کرتا ہے وہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کو جنگ کی دعوت دیتا ہے، اور اُس کے غضب اور عذاب سے کھیلنا چاہتا ہے۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ یاد رکھو وہ بندے محبوبانِ بارگاہ خداوندی ہیں جو نیکو کار اور تقویٰ شعار ہیں، لیکن اسبابِ شہرت سے بچنے کی وجہ سے کوئی اُن کے اس امتیاز کو جانتا بھی نہیں، وہ ایسے گمنام اور نامعروف ہیں کہ غائب ہوں تو کسی کو اُن کی فکر اور تلاش نہ ہو، اور موجود ہوں تو کوئی اُن کو مدعو نہ کرے، اُن کے دل روشن بلکہ دوسروں کو روشنی دینے والے چراغ ہیں، اور وہ اپنے دل کی اس روشنی کی وجہ سے فتنوں کی سخت سے سخت اندھیریوں میں سے اپنے دین و ایمان کو محفوظ رکھے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ (۱) حضرت معاذ ؓ کے رونے میں غالباً ان کے اس احساس کو بھی دخل ہو اگ کہ افسوس ہم ایسے گمنام اور نامعروف نہیں رہے، اور ہماری زندگی ایسی غربت اور کسمپرسی کی نہیں رہی، اور ممکن ہے یہ بھی حساس ہو کہ اللہ کے کسی ایسے مستورالحال بندے کی مجھ سے کوئی حق تلفی نہ ہو گئی ہو، اور اُس کو میر ی ذات سے کوئی ایذا کبھی نہ پہنچ گئی ہو۔
Top