معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 240
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ إِلَى أَنْ قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ ، أَوْصِنِي . قَالَ : " أَوْصَيْتُكَ بِتَقْوَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ، فَإِنَّهُ أَزْيَنُ لِأَمْرِكَ كُلِّهِ " قُلْتُ : زِدْنِي . قَالَ : " عَلَيْكَ بِتِلَاوَةِ الْقُرْآنِ ، وَذِكْرِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ، فَإِنَّهُ ذِكْرٌ لَكَ فِي السَّمَاءِ وَنُورٌ لَكَ فِي الْأَرْضِ " قُلْتُ : زِدْنِي ، قَالَ : " عَلَيْكَ بِطُولِ الصَّمْتِ ، فَإِنَّهُ مَطْرَدَةٌ لِلشَّيْطَانِ ، وَعَوْنٌ لَكَ عَلَى أَمْرِ دِينِكَ " قُلْتُ : زِدْنِي . قَالَ : إِيَّاكَ وَكَثْرَةَ الضَّحِكِ ، فَإِنَّهُ يُمِيتُ الْقَلْبَ ، وَيَذْهَبُ بِنُورِ الْوَجْهِ " قُلْتُ : زِدْنِي . قَالَ : " قُلِ الْحَقَّ ، وَإِنْ كَانَ مُرًّا " قُلْتُ : زِدْنِي . قَالَ : " لَا تَخَفْ فِي اللهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ " قُلْتُ : زِدْنِي . قَالَ : " لِيَحْجِزْكَ عَنِ النَّاسِ مَا تَعْلَمُ مِنْ نَفْسِكَ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
رسول اللہ ﷺ کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں
حضرت ابوذر غفاری ؓ سے روایت ہے، کہتے ہیں میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے بعد (یا تو خود حضرت ابوذر نے یا ان سے روایت کرنے والے نیچے کے راوی نے) ایک طویل حدیث بیان کی (جس کو یہاں بیان نہیں کیا گیا ہے) اسی سلسلہ کلام میں حضرت ابوذر ؓ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! مجھے وضیت فرمائیے۔ آپ نے ارشاد فرمایا، میں تم کو وصیت کرتا ہوں اللہ کے تقوے کی، کیوں کہ یہ تقوی بہت زیادہ آراستہ کر دینے والا اور سنوار دینے والا ہے، تمہارے سارے کاموں کو۔ ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے دعرض کیا کہ حضرت! اور وصیت فرمائیے۔ آپ نے ارشاد فرمایا، تم قرآن مجید کی تلاوت اور اللہ کے ذکر کو لازم پکڑ لو، کیوں کہ یہ تلاوت، اور ذکر ذریعہ ہو گا آسمان میں تمہارے ذکر کا، اور اس زمین میں نور ہو گا تمہارے لئے۔ ابوذرؓ کہتے ہیں میں نے پھر عرض کیا، حضرت مجھے کچھ اور نصیحت فرمائیے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: زیادہ خاموش رہنے اور کم بولنے کی عادت اختیار کرو، کیوں کہ یہ عادت شیطان کو دفع کرنے والی اور دین کے معاملے میں تم کو مدد دینے والی ہے۔ ابوذر کہتے ہیں میں نے عرض کیا، مجھے اور نصیحت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا: زیادہ ہنسنا چھوڑ دو کیونکہ یہ عادت دل کو مردہ کر دیتی ہے، اور آدمی کے چہرے کا نور اس کی وجہ سے جاتا رہتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت! مجھے اور نصیحت فرمائیے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ہمیشہ حق اور سچی بات کہو، اگرچہ (لوگوں کے لیے) ناخوشگوار اور کڑوی ہو۔ میں نے عرض کیا، مجھے اور نصیحت فرمائیے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرو۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت! مجھے اور نصیحت فرمائیے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: تم جو کچھ اپنے نفس اور اپنی ذات کے بارے میں جانتے ہو، چاہئے کہ وہ تم کو باز رکھے دوسروں کے عیبوں کے پیچھے پڑنے سے۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی اکثری عادتِ مبارکہ کے مطابق سب سے پہلی وصیت ابوذر غفاری ؓ کو تقوے کی فرمائی، اور ارشاد فرمایا کہ تقویٰ تمہارے سارے کاموں کو بہت مزین اور آراستہ کر دینے والا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر آدمی تقوے کو اپنا شعار بنا لے، تو اس کی ساری زندگی اطاعت اور بندگی والی زندگی ہو جائے گی، اور اس کا ظاہر و باطن سب ہی آراستہ ہو جائے گا۔ پھر آپ نے تلاوت قرآن اور ذکر اللہ کی کثرت کی وصیت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس کے نتیجہ میں آسمانوں میں یعنی ملاء اعلیٰ میں تمہارا ذکر ہو گا۔ چنانچہ ایک حدیث میں وارد ہے کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں یاد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کی مجلس میں کا ذکر فرماتے ہیں۔ قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے " فَاذْكُرُوْنِىْ اَذْكُرْكُمْ " (تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا) تلاوت و ذکر کی دوسری برکت آپ نے یہ بیان فرمائی کہ اس سے اسی دنیا اور اسی زمین میں ایک نور تم کو حاصل ہو گا، ذکر و تلاوت سے پیدا ہونے والا نور دراصل تو بندہ کے باطن میں پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے آثار ظاہر میں بھی محسوس ہوتے ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے زیادہ خاموش رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہ ہتھیار ہے جس سے شیطان دفع ہو سکتا ہے، اور دین کے بارے میں اس سے بڑی مدد مل سکتی ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ جس کو ہر شخص محسوس کر سکتا ہے کہ شیطان آدمی کے دین کو سب سے زیادہ نقصان زبان ہی کے راستے سے پہنچا سکتا ہے، جھوٹ غیبت، بہتان، گالی گلوج، چغل خوری وغیرہ، یہی وہ گناہ ہیں جن میں آدمی سب سے زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ اسی لئے ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ " آدمیوں کو جہنم میں منہ کے بل اُن کے زبانوں کے بیباکیاں ہی ڈلوائیں گی "۔ پس ظاہر ہے کہ جو شخص زیادہ خاموش رہنے اور کم بولنے کی عادت ڈال لے، وہ اپنے کو اور اپنے دین کو شیطان کے حملوں سے زیادہ محفوظ رکھ سکے گا۔ واضح رہے کہ زیادہ خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس بات کے کرنے کی ضرورت نہ ہو اورجس پر آخرت میں ثواب ملنے کی امید نہ ہو، اُس سے زبان کو روکا جائے، یہ مطلب نہیں ہے کہ اچھی باتیں بھی نہ کی جائیں۔ کتاب الایمان میں یہ حدیث گزر چکی ہے کہ جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اُسے چاہئے کہ یا تو اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔ اس کے بعد آپ نے زیادہ ہنسنے کی نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس سے دل مردہ ہو جاتا ہے، اور چہرہ بے نور ہو جاتا ہے۔ دل کے مر جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں غفلت اور بے حسی اور ایک طرح کی ظلمت آ جاتی ہے، اور اس کا اثر ظاہر پر یہ پڑتا ہے کہ چہرہ پر وہ نور باقی نہیں رہتا جو زندہ اور بیداردل رکھنے واے اہل ایمان کے چہروں پر ہوتا ہے۔ اس سلسلہ کلام میں آپ نے سب سے آخری نصیحت حضرت ابوذر کو ئی فرمائی کہ اپنے عیبوں اور گناہوں کے بارے میں جو کچھ تم جانتے ہو، اُس کی فکر تم کو اتنی ہونی چاہئے کہ دوسرے بندوں کے عیوب و ذنوب کو دیکھئے اور ان کی باتیں کرنے کی تم کو فرصت ہی نہ ہو، بلا شبہ جو بندہ بھی اپنے عیوب اور اپنے گناہوں پر نظر رکھے گا اور اپنے نفس کا ایک سچے مؤمن کی طرح احتساب کرتا رہے گا، اُسے دوسروں کے معائب اور معاصی نظر ہی نہ آئیں گے، اور وہ اپنے ہی کو سب سے زیادہ قصور وار اور گناہ گار سمجھے گا، دوسروں کے عیوب اُن ہی کو زیادہ نظر آتے ہیں جو اپنی فکر سے خالی ہوتے ہیں۔ ؎ غافل ان ایں خلق از خود بے خبرلا جرم گویند عیبے یک دگر
Top