معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 241
عَنْ مُعَاوِيَةَ اَنَّهُ كَتَبَ اِلَى عَائِشَةَ اَنْ اكْتُبِي إِلَيَّ كِتَابًا تُوصِينِي فِيهِ ، وَلاَ تُكْثِرِي عَلَيَّ ، فَكَتَبَتْ سَلاَمٌ عَلَيْكَ . أَمَّا بَعْدُ : فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : مَنِ التَمَسَ رِضَاءَ اللهِ بِسَخَطِ النَّاسِ كَفَاهُ اللَّهُ مُؤْنَةَ النَّاسِ ، وَمَنِ التَمَسَ رِضَاءَ النَّاسِ بِسَخَطِ اللهِ وَكَلَهُ اللَّهُ إِلَى النَّاسِ ، وَالسَّلاَمُ عَلَيْكَ . (رواه الترمذى)
رسول اللہ ﷺ کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں
حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو خط لکھا، اور اس میں درخواست کی کہ آپ مجھے کچھ نصیحت اور وصیت فرمائیں، لیکن بات مختصر اور جامع ہو، بہت زیادہ نہ ہو۔ تو حضرت ام المؤمنین نے اُن کو یہ مختصر خط لکھا: سلام ہو تم پر۔ اما بعد! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا ہے، آپ فرماتے تھے جو کوئی اللہ کو راضی کرنا چاہے، لوگوں کو اپنے سے خفا کر کے، تو اللہ مستغنی کر دے گا اُس کو لوگوں کی فکر اور بار برداری سے، اور خود اُس کے لیے کافی ہو جائے گا اور جو کوئی بندوں کو راضی کرنا چاہے گا اللہ کو ناراض کر کے، تو اللہ اُس کو سپرد کر دے گا لوگوں گے۔ والسلام (جامع ترمذی)

تشریح
اس دنیا میں رہنے والے انسانوں اور خاص کر وسیع تعلقات اور وسیع ذمہ داریاں رکھنے والے لوگوں کو بکثرت ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ اگر وہ ایسا رویہ اختیار کریں جس سے اللہ کی رضا کی اُمید ہو، تو بہت سے لوگ خفا ہوتے ہیں، جن سے تعلقات ہیں اور منفعت کی امیدیں ہیں، اور جن سے برابر کام نکلتے رہتے ہیں اور اگر وہ ان لوگوں کی منشاء کے مطابق چلتے ہین، تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے ایسے وقت کے لیے اس حدیث میں یہ رہنمائی کی گئی ہے کہ بندہ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا والا رویہ اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات و حاجات کاخود کفیل ہو جائے گا، اور بندوں سے جن منافع کی وہ امید رکھتا ہے وہ سب اُس کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ھاصل ہوتے رہیں گے۔ لیکن اگر اُس نے رضا الہی کی فکر و تلاش کو چھوڑ کر بندوں کو راضی رکھنا چاہا اور اُن کی منشا کے مطابق چلا، تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی عنایت و نصرت سے محروم کر دیں گے، اور اُن بندوں ہی کے حوالہ کر دیں گے جو اپنی ذات سے خود بھی اسی بندہ کی طرح محتاج اور بے بس ہیں۔ حاصل یہ کہ اگر بندہ چاہے کہ اللہ تعالیٰ براہِ راست اُس کی حاجات و ضروریات کے کفیل ہو جائیں، تو اُسے چاہئے کہ وہ ہر معاملہ میں اللہ کی اور صرف اللہ کی رضا جوئی کو اپنا نصب العین اور اصول حیات بنا لے، اور اُس کے قلب مؤمن کی صدا یہ ہو ع با خدا داریم کار و با خلائق کار نیست یہ نصیحت اگرچہ لفظوں میں مختصر ہے، لیکن غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ معنی و مقصد کے لحاظ سے ایک پورا دفتر ہے۔
Top