معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 253
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ ، اشْتَدَّ عَلَيْهِ العَطَشُ ، فَوَجَدَ بِئْرًا فَنَزَلَ فِيهَا ، فَشَرِبَ ثُمَّ خَرَجَ ، فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ ، يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ العَطَشِ ، فَقَالَ الرَّجُلُ : لَقَدْ بَلَغَ هَذَا الكَلْبَ مِنَ العَطَشِ مِثْلُ الَّذِي كَانَ بَلَغَ بِي ، فَنَزَلَ البِئْرَ فَمَلَأَ خُفَّهُ ثُمَّ أَمْسَكَهُ بِفِيهِ ، فَسَقَى الكَلْبَ فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ " قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَإِنَّ لَنَا فِي البَهَائِمِ أَجْرًا؟ فَقَالَ : « نَعَمْ ، فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ » (رواه البخارى ومسلم)
ایک شخص پیاسے کتے کو پانی پلانے پر بخش دیا گیا
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس اثناء میں کہ ایک آدمی راستہ چلا جا رہا تھا، اُسے سخت پیاسلگی، چلتے چلتے اُسے ایک کنواں ملا، وہ اس کے اندر اُترا اور پانی پی کر باہر نکل آیا، کنوئیں کے اندر سے نکل کر اُس نے دیکھا کہ ایک کتا ہے جس کی زبان باہر نکلی ہوئی ہے اور پیاس کی شدت سے وہ کیچڑ کھا رہا ہے، اس آدمی نے دل میں کہا کہ اس کتے کو بھی پیاس کی ایسی ہی تکلیف ہے جیسی کہ مجھے تھی، اور وہ اس کتے پر رحم کھا کر پھر اس کنوئیں میں اُترا اور اپنے چمڑے کے موزے میں پانی بھر کر اُس نے اُس کو اپنے منہ سے تھاما اور کنوئیں سے باہر نکل آیا، اور اُس کتے کو وہ پانی اُس نے پلا دیا، اللہ تعالیٰ نے اس کی اس رحمدلی اور اس محنت کی قدر فرمائی اور اسی عمل پر اس کی بخشش کا فیصلہ فرما دیا۔ بعض صحابہ نے حضور ﷺ سے یہ واقعہ سُن کر دریافت کیا، کہ: یا رسول اللہ! کیا جانوروں کی تکلیف دور کرنے میں بھی ہمارے لئے اجر و ثواب ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! ہر زندہ اور تر جگر رکھنے والے جانور (کی تکلیف دور کرنے) میں ثواب ہے۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
بعض اوقاتایک معمولی عمل دل کی خاص کیفیت یا خاص حالات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑی قبولیت حاصل کر لیتا ہے، اور اس کا کرنے والا اُسی پر بخش دیا جاتا ہے، اس حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اُس کی نوعیت بھی یہی ہے۔ آپ ذرا سوچئے! ایک شخص گرمی کے موسم میں اپنی منزل کی طرف چلا جا رہا ہے، اُس کو پیاس لگی ہے، اسی حالت میں اُس کو ایک کنواں نظر پڑ گیا، لیکن پانی نکالنے کا کوئی سامان رسی ڈول وغیرہ نہیں ہے اس لئے مجبوراً یہ شخص پانی پینے کے لئے خود ہی کنوئیں میں اتر گیا، وہیں پانی پیا اور نکل آیا، اب اُس کی نظر ایک کتے پر پڑی، جو پیاس کی شدت سے کیچڑ چاٹ رہا تھا، اُس کو اُس کی حالت پر ترس آیا، اور دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ اس کو بھی پانی پلاؤں، اُس وقت ایک طرف اس کی اپنی حالت کا تقاضا یہ ہو گا کہ اپنا راستہ لوں اور منزل پر جلدی پہنچ کے آرام کروں، اور دوسری طرف اُس کے جذبہ رحم کا داعیہ یہ ہو گا کہ خواہ میرا راستہ کھوٹا ہو، اور خواہ کنوئیں سے پانی نکالنے میں مجھے کیسی ہی محنت مشقت کرنی پڑے لیکن میں اللہ کی اس مخلوق کو پیاس کی تکلیف سے نجات دوں، اس کشمکش کے بعد جب اُس نے اپنی طبیعت کے آرام کے تقاضے کے خلاف جذبہ رحم کے تقاضے کے مطابق فیصلہ کیا اور کنوئیں میں اُتر کر موزے میں پانی بھر کر اور منہ میں موزا تھام کر محنت و مشقت سے پانی نکال کے لایا، اور اُس پیاسے کتے کو پلایا تو اُس بندہ کی اس خاص حالت اور ادا پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آ گیا، اور اسی پر اس کی مغفرت کا فیصلہ فرما دیا گیا۔ الغرض مغفرت و مخشش کے اس فیصلہ کا تعلق صرف کتے کو پانی پلانے کے عمل ہی سے نہ سمجھنا چاہئے، بلکہ جس خاص حالت میں اور جس جذبہ کے ساتھ اُس نے یہ عمل کیا تھا، وہ اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند آیا، اور اسی پر اس بندہ کی مغفرت اور بخشش کا فیصلہ کر دیا۔
Top