معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 267
عَنِ عَبْدِاللهِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، كَمْ أَعْفُو عَنِ الْخَادِمِ؟ فَصَمَتَ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، كَمْ أَعْفُو عَنِ الخَادِمِ؟ فَقَالَ : كُلَّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً . (رواه الترمذى)
خادم اور نوکر کو معافی دو ، اگرچہ وہ ایک دن میں ستر دفعہ قصور کرے
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں اپنے خادم (غلام یا نوکر) کا قصور کتنی دفعہ معاف کروں؟ آپ نے اُس کو کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش رہے۔ اُس نے پھر وہی عرض کیا، کہ میں اپنے خادم کو کتنی دفعہ معاف کروں؟ آپ نے ارشاد فرمایا ہر روز ستر دفعہ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
سوال کرنے والے کا مقصد یہ تھا کہ حضرت اگر میرا خادم غلام یا نوکر بار بار قصور کرنے، تو کہاں تک میں اس کو معاف کروں، اور کتنی دفعہ معاف کرنے کے بعد میں اس کو سزا دوں؟ آپ نے جواب دیا کہ: اگر بالفرض روزانہ ستر دفعہ بھی وہ قصور کرے، تو تم اس کو معاف ہی کرتے رہو۔ حضور ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ قصور کا معاف کرنا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی حد مقرر کی جائے، بلکہ حسن اخلاق اورترحم کا تقاضا یہ ہے کہ اگر بالفرض وہ روزانہ ستر دفعہ بھی قصور کرے تو اس کو معاف ہی کر دیا جائے۔ ف۔۔۔ جیسا کہ بار بار لکھا جا چکا ہے، ستر کا عدد ایسے موقعوں پر تحدید کے لئے نہیں ہوتا بلکہ صرف تکثیر کے لئے ہوتا ہے، اور خاص کر اس حدیث میں یہ بات بہت ہی واضح ہے۔
Top