معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 275
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنِّي مَجْهُودٌ ، فَأَرْسَلَ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ ، فَقَالَتْ : وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ ، مَا عِنْدِي إِلَّا مَاءٌ ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى أُخْرَى ، فَقَالَتْ مِثْلَ ذَلِكَ ، حَتَّى وَقُلْنَ كُلُّهُنَّ مِثْلَ ذَلِكَ : فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ يُضِيفُهُ يَرْحَمُهُ اللهُ؟ » ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ ، يُقَالُ لَهُ اَبِىْ طَلْحَةَ فَقَالَ : أَنَا ، يَا رَسُولَ اللهِ ، فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى رَحْلِهِ ، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ : هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٌ؟ قَالَتْ : لَا إِلَّا قُوتُ صِبْيَانِي ، قَالَ : فَعَلِّلِيهِمْ بِشَيْءٍ ، وَنَوِّمِيْهِمْ فَإِذَا دَخَلَ ضَيْفُنَا ، فَأَرِيهِ أَنَّا نَأْكُلُ ، فَإِذَا أَهْوَى بِيَدِهِ لِيَأْكُلَ ، فَقُومِي إِلَى السِّرَاجِ كَىْ تُصْلِحِيْهِ فَأَطْفِئِيْهِ فَفَعَلَتْ فَقَعَدُوا وَأَكَلَ الضَّيْفُ وَبَاتَا طَاوِيَيْنِ ، فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَى رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَقَدْ عَجِبَ اللهُ مِنْ اَوْ ضَحِكَ اللهُ مِنْ فُلَانٍ وَفُلَانَةٍ » (رواه البخارى ومسلم)
ایک صحابی (ابوطلحہ) اور ان کے گھر والوں کے ایثار کا ایک سبق آموز واقعہ ، اور اس پر رسول اللہ ﷺ کی بشارت
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا، میں بڑا دکھی فقیر ہوں (مجھے بھوک بہت ستا رہی ہے) آپ نے اپنی بعض ازواج مطہرات کے پاس کہلا بھیجا (کہ اگر کھانے کی کوئی چیز ہو، تو ایک ایسے حاجتمند کے لیے بھیج دو) وہاں سے جواب ملا، کہ قسم اُس پاک ذات کی جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ بھیجا ہے، ہمارے ہاں اس وقت کھانے پینے کی کوئی چیز پانی کے سوا نہیں ہے۔ پھر آپ نے اپنے کسی دوسرے گھر میں کہلا کے بھیجا، وہاں سے بھی یہی جواب ملا، پھر (یکے بعد دیگرے اپنے سب گھروں میں کہلا کے بھیجا اور) اُن سب کی طرف سے یہی جواب ملا (کہ اس وقت پانی کے سوا کھانے پینے کی کوئی چیز گھر میں نہیں ہے، اپنے سب گھروں سے یہ جواب ملنے کے بعد) آپ نے صحابہ حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا: تم میں سے کون اس بندہ کو اپنا مہمان بنا سکتا ہے، اُس پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوگی! انصار میں سے ابو طلحہ نامی ایک شخص کھڑے ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! ان کو میں اپنا مہمان بناتا ہوں۔ چنانچہ وہ اس حاجت مند شخص کو اپنے گھر لے گئے اور بیوی سے کہا (اسوقت ایک مہمان کے لیے) کیا تمہارے ہاں کچھ ہے؟ بیوی نے جواب دیا، کہ بس اپنے بچوں کا کھانا ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے (یہاں تک کہ میرے اور تمہارے کھانے کے لئے بھی کچھ نہیں ہے)۔ ابو طلحہ نے کہا، تو پھر ایسا کرو کہ اُن بچوں کو کسی چیز سے بہلا کے (بِلا کھلائے) سُلا دو، اور جب ہمارا مہمان گھر میں آ جائے تو (اپنے طرزِ عمل سے) اُس پر یہ ظاہر کرنا اور ایسا دکھانا کہ (اس کے ساتھ) ہم بھی کھائیں گے، پھر جب وہ کھانے کے لئے ہاتھ بڑھائے (اور کھانا شروع کر دے) تو تم چراغ ٹھیک کرنے کے بہانے چراغ کے پاس جانا اور اُس کو گُل کر دینا (تا کہ گھر میں اندھیرا ہو جائے اور مہمان یہ نہ دیکھ سکے کہ ہم اُس کے ساتھ کھا رہے ہیں یا نہیں) چنانچہ بیوی نے ایسا ہی کیا، پس بیٹھے تو سب لیکن کھانا صرف مہمان ہی نے کھایا، اور ان دونوں میاں بیوی نے بھوکے رہ کر رات گذاری، پھر جب صھؓ ہوئی تو ابو طلحہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے اُن کا اور اُن کی بیوی کا نام لے کر اُن کو خوش خبری سنائی کہ، اللہ تعالیٰ کو اپنے فلاں بندے اور فلاں بندی کا یہ عمل بہت ہی پسند آیا، اور اللہ تعالیٰ بہت ہی خوش ہوا۔ راوی کو شک ہے کہ آپ ﷺ نے اس مطلب کے ادا کرنے کے لئے " عَجِبَ اللهُ " کا لفظ بولا تھا، یا " ضَحِكَ اللهُ " کا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و تربیت اور آپ کے عملی نمونہ نے صحابہ کرامؓ میں ایثار کی یہ صفت جس درجہ میں پیدا کر دی تھی یہ واقعہ اُسکا ایک نمونہ ہے۔ قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ کے انصار کی اسی صفت اور اسی سیرت کی مدح ان الفاظ میں کی گئی ہے: وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (سوره حشر 9: 59) ابو طلحہؓ انصاری کے اس عمل کو اللہ تعالیٰ کے ہاں جو غیر معمولی قبولیت حاصل ہوئی، اور رضا اور پسندیدگی کا جو خاص الخاص درجہ نصیب ہوا، اُس کو سمجھانے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے بطور مجاز یا استعارہ کے " عَجِبَ " یا " ضَحِكَ " کا لفظ بولا، ورنہ ظاہر ہے کہ حیرت و تعجب کرنا اور ہنسنا، اپنے حقیقی معنی کے لحاظ سے یہ دونوں صفتیں کسی بندہ ہی کی ہو سکتی ہیں۔
Top