معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 288
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الحَدِيثِ ، وَلاَ تَحَسَّسُوا ، وَلاَ تَجَسَّسُوا ، وَلاَ تَنَاجَشُوا ، وَلاَ تَحَاسَدُوا ، وَلاَ تَبَاغَضُوا ، وَلاَ تَدَابَرُوا ، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا » (رواه البخارى ومسلم)
باہم نفرت و عداوت ، بغض و حسد اور بد گمانی و شماتت کی ممانعت
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ تم دوسروں کے متعلق بدگمانی سے بچو، کیوں کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، تم کسی کی کمزوریوں کی ٹوہ میں نہ رہا کرو، اور جاسوسوں کی طرح راز دارانہ طریقے سے کسی کے عیب معلوم کرنے کی کوشش بھی نہ کیا کرو، اور نہ ایک دوسرے پر بڑھنے کی بے جا ہوس کرو، نہ آپس میں حسد کرو، نہ بغض و کینہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو، بلکہ اے اللہ کے بندو! اللہ کے حکم کے مطابق بھائی بھائی بن کر رہو (بخاری و مسلم)

تشریح
مندرجہ بالا حدیثوں میں رسول اللہ ﷺ نے جس طرح مسلمانوں کو باہم محبت و ہمدردی کا برتاؤ کرنے اور ایک جسم و جان بن کر رہنے کی تاکید فرمائی ہے، اسی طرح اس کے خلاف برتاؤ کرنے، مثلاً ایک دوسرے کے ساتھ بد گمانی رکھنے، بدگوئی کرنے، بے تعلق رہنے، اس کی مصیبت پر خوش ہونے، اس کو ایذا پہنچانے، اور حسد یا کینہ رکھنے کی سخت مذمت اور انتہائی تاکیدوں کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔ اس سلسلہ کے آپ کے چند ارشادات یہ ہیں: تشریح۔۔۔ اس حدیث میں جن جن چیزوں سے ممانعت فرمائی گئی ہے، یہ سب وہ ہیں جو دلوں میں بغض و عداوت پیدا کر کے آپس کے تعلقات کو خراب کرتی ہیں۔ سب سے پہلے آپ نے بدگمانی کا ذکر فرمایا، یہ ایک قسم کا جھوٹا وہم ہے، جو شخص اس بیماری میں مبتلا ہو اُس کا حال یہ ہوتا ہے کہ جس کسی سے اس کا ذرا سا اختلاف ہو اُس کے ہر کام میں اس کو بدنیتی ہی بد نیتی معلوم ہوتی ہے، پھر محض اس وہم اور بدگمانی کی بنا پر وہ اس کی طرف بہت سی ان ہونی باتیں منسوب کرنے لگتا ہے پھر اس کا اثر قدرتی طور پر ظاہری برتاؤ پر بھی پڑتا ہے، پھر اس دوسرے شخص کی طرف سے بھی اس کا ردِّ عمل ہوتا ہے، اور اس طرح دل پھٹ جاتے ہیں، اور تعلقات ہمیشہ کے لیے خراب ہو جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں بدگمانی کو " أَكْذَبُ الحَدِيثِ " فرمایا ہے، یعنی سب سے جھوٹی بات، بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے خلاف زبان سے اگر جھوٹی بات ہی جائے تو اس کا سخت گناہ ہونا ہر مسلمان جانتا ہے، لیکن کسی کے متعلق بدگمانی کو اتنی بُری بات نہیں سمجھا جاتا رسول اللہ ﷺ نے متنبہ فرمایا کہ یہ بدگمانی بھی بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا جھوٹ ہے، اور دل کا یہ گناہ زبان والے جھوٹ سے کم نہیں ہے۔ اور جس حدیث میں بدگمانی کی شناعت اور قباحت کو ان الفاط سے ظاہر فرمایا گیا ہے، اُسی طرح ایک دوسری حدیث میں نیک گمانی کو بہترین عبادت بتایا گیاہے، ارشاد ہے: " حُسْنَ الظَّنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَةِ " (رواه احمد وابوداؤد عن ابى هريرة) " پھر بدگمانی کے بعد اور جن جن بُری عادتوں سے اس حدیث میں ممانعت فرمائی گئی ہے۔ یعنی کسی کی کمزوریوں کی ٹوہ میں رہنا، دوسروں میں عیبوں کا تجسس کرنا، ایک دوسرے پر رفعت حاصل کرنے اور بڑھنے کی کوشش کرنا، کسی کو اچھے حال میں دیکھ کر اُس پرحسد کرنا، اور اس کی خوش حالی کو ٹھنڈی آنکھ نہ دیکھ سکنا، وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کا حال بھی یہی ہے، کہ ان سے دلوں میں نفرت و عداوت کا بیج پڑتا ہے، اور ایمانی تعلق جس محبت و ہمدردی اور جس اخوت و یگانگت کو چاہتا ہے اس کا امکان بھی باقی نہیں رہتا۔ حدیث کے آخر میں جو فرمایا گیا ہے " اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی ہو کر رہو! " اس میں اشارہ ہے کہ جب تم اپنے دلوں اور سینوں کو نفرت و عداوت پیدا کرنے والی ان بری عادتوں سے صاف رکھو گے تب ہی تم آپس میں بھائی بھائی بن کر رہ سکو گے۔
Top