معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 298
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا يُرِيدُ اللهُ بِأَهْلِ بَيْتٍ رِفْقًا إِلَّا نَفَعَهُمْ ، وَلَا يَحْرِمُهُمْ إِيَّاهُ إِلَّا ضَرَّهُمْ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
نرم مزاجی اور درشت خوئی
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں ارادہ کرتا اللہ تعالیٰ کسی گھر کے لوگوں کے لئے نرمی کی صفت عطا کرنے کا، مگر ان کو نفع پہنچاتا ہے اس کے ذریعہ، اور نہیں محروم کرتا کسی گھر کے لوگوں کو نرمی کی صفت سے مگر یہ کہ ضرر پہنچاتا ان کو۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ عام سنت اور اس کا کلی قانون ہے کہ جس گھر کے لوگوں کو وہ نرمی کی خصلت عطا فرماتا ہے ان کے لیے یہ نرمی بہت سی منفعتوں اور برکتوں کا ذریعہ بنتی ہے، اور جن لوگوں کو وہ اس اچھی خصلت سے محروم رکھتا ہے ان کے لیے یہ محرومی بہت سے نقصانات اور بہت سی زحمتوں کا سبب بنتی ہے۔ انسان کی خصلتوں میں نرمی اور سختی کی یہ خصوصیت ہے کہ ان کے استعمال کا دائرہ بہت زیادہ وسیع ہے جس شخص کے مزاج اور رویہ میں سختی ہوگی وہ اپنے گھر والوں، بیوی بچوں، عزیزوں قریبوں کے لیے سخت ہو گا، پڑوسیوں کے حق میں سخت ہو گا، اگر استاد ہے تو شاگردوں کے حق میں سخت ہو گا، اسی طرح اگر حاکم اور افسر ہے تو محکوموں اور ماتحتوں کے حق میں سخت ہو گا، غرضیکہ زندگی میں جہاں جہاں اور جن جن سے اس کا واسطہ پڑے گا ان کے ساتھ اس کا رویہ سخت ہو گا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کی زندگی خود اس کے لئے اور اس سے تعلق رکھنے والوں کے لیے مستقل عذاب ہوگی۔ اور اس کے برعکس جس بندہ کے مزاج اور رویہ میں نرمی ہوگی وہ گھر والوں پڑوسیوں، افسروں، ماتحتوں، شاگردوں، استادوں، اپنوں، بیگانوں، غرض کہ سب کے ساتھ نرم ہو گا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس نرمی کی بدولت وہ خود بھی راحت سے رہے گا اور دوسروں کے لئے بھی راحت اور سکون کا باعث ہو گا، پھر یہ نرمی باہم محبت و مؤدت پیدا کرے گی اور اکرام و احترام اورخیر خواہی کے جذبات کو ابھورے گی، اور اس کے برعکس درشت مزاجی اور رتندخوئی دلوں میں بغض و عداوت پیدا کرے گی، اور حسد و بد خواہی اور جنگ و جدل کے منحوس جذبات کو بھڑکائے گی۔ سختی اور نرمی کے یہ تو چند وہ دنیوی نتائج ہیں جن کا ہم روز مرہ اپنی زندگیوں میں اور اپنے ماحول میں تجربہ اور مشاہدہ کرتے رہتے ہیں (اور تھوڑے سے غور و فکر سے بہت سے ان بڑے اور دور رس نتائج کو بھی سمجھ سکتے ہیں) ان کے علاوہ اس نرم مزاجی اور درشت خوئی کے جو بے حد عظیم الشان اخروی نتائج آخرت کی زندگی میں سامنے آنے والے ہیں، ان کا تجربہ اور مشاہدہ تو اپنے وقت پر ہی ہو گا، لیکن اس دنیوی زندگی میں آخرت کے نفع و نقصان اور ثواب و عذاب کو جتنا کچھ ہم جان اور سمجھ سکتے ہیں، اس کے لئے رسول اللہ ﷺ کے اس سلسلہ کے ارشادات ہمارے لئے کافی ہیں۔
Top