معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 301
عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : « خَدَمْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ بِالْمَدِينَةِ وَأَنَا غُلَامٌ لَيْسَ كُلُّ أَمْرِي كَمَا يَشْتَهِي صَاحِبِي أَنْ يَكُونَ عَلَيْهِ مَا قَالَ لِي فِيهَا أُفٍّ قَطُّ ، وَمَا قَالَ لِي لِمَ فَعَلْتَ هَذَا أَوْ أَلَّا فَعَلْتَ هَذَا » (رواه ابو داؤد)
رسول اللہ ﷺ کی نرم مزاجی
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں مدینہ میں دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہا، اور میں نو عمر لڑکا تھا، اس لئے میرا ہر کام رسول اللہ ﷺ کی مرضی کے بالکل مطابق نہیں ہوتا تھا، (یعنی نو عمری کی وجہ سے بہت سی کوتاہیاں بھی ہو جاتی تھیں) لیکن دسسال کی اس مدت میں کبھی آپ نے اُف کہہ کے بھی مجھے نہیں ڈانٹا، اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا؟ یا کیوں نہیں کیا؟

تشریح
رسول اللہ ﷺ جب ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اس وقت حضرت انس کی عمر تقریباً دس سال کی تھی، ان کی والدہ ام سلیم نے اُن کو مستقلاً رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دے دیا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے آخری روزِ حیات تک یہ آپ کی خدمت میں رہے، اُن ہی کا یہ بیان ہے کہ نو عمری اور لڑکپن کی وجہ سے آپ کے کاموں میں مجھ سے بہت سی کوتاہیاں بھی ہو جاتی تھیں، لیکن کبھی آپ نے مجھے کسی غلطی اور قصور پر اُفتک نہیں کہا، اور کبھی مجھ پر غصہ نہیں فرمایا۔ بلا شبہ یہ بہت بڑی اور بہت مشکلبات ہے، لیکن ہم امتیوں کے لیے رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ یہی ہے، اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کی اس نرم مزاجیاور بردباری کا کوئی حصہ ہم کو بھی نصیب فرمائے۔
Top