معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 312
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَرْجِسَ الْمُزَنِيِّ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : السَّمْتُ الحَسَنُ ، وَالتُّؤَدَةُ وَالاِقْتِصَادُ جُزْءٌ مِنْ أَرْبَعَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ . (رواه الترمذى)
ہر کام متانت اور وقار کے ساتھ انجام دینے کی فضیلت اور ترغیب
عبداللہ بن سرجسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اچھی سیرت، اور اطمینان و وقار سے اپنے کام انجام دینے کی عادت اور میانہ روی ایک حصہ ہے نبوت کے چوبیش حصوں میں سے۔ (جامع ترمذی)

تشریح
حدیث کا اصل مقصد ان تینوں چیزوں کی اہمیتبیان کرنا اور ان کی ترغیب دینا ہے۔ اور نبوت کے حصوں میں سے ہونے کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ پیغمبر کی زندگی جن محاسن اور کمالات سے مکمل اور مزین ہوتی ہے یہ تینوں اوصاف ان کا چوبیسواں حصہ ہیں، یا یہ کہ انسانی سیرت کی تعمیر کے سلسلہ میں انبیاء علیہم السلام جن خصائل کی تعلیم دیتے اور تلقین فرماتے ہیں، ان کے چوبیس حصوں میں سے ایک حصہ یہ تین چیزیں ہیں، یعنی اچھی سیرت اور اطمینان و وقار سے اپنے کام انجام دینے کی عادت، اور میانہ روی۔ میانہ روی " میانہ روی " ہم نے حدیث کے لفظ اقتصاد کا ترجمہ کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر کام اور ہر حال میں افراط و تفریط سے بچا جائے، اور اعتدال کی روش اختیار کی جائے، رسول اللہ ﷺ نے اپنی تعلیمات میں اس چیز پر خاص طور سے زور دیا ہے، یہاں تک کہ عبادت جیسے بہترین انسانی عمل میں بھی آپ نے اعتدال و میانہ روی کی تاکید فرمائی ہے۔ بعض صحابہ نے بہت زیادہ عبادت گذاری کا ارادہ کیا، یعنی دن کو ہمیشہ روزہ رکھنے اور پوری رات جاگ کر نمازیں پڑھنے کا منصوبہ بنایا، تو آپ نے ان کو سخت تنبیہ فرمائی اور اس سے منع فرما دیا۔ اسی طرح بعض صحابہ نے جب اپنا پورا مال راہ خدا میں صرف کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، تو آپ نے ان کو اس سے روک دیا، اور صرف ایک تہائی کی اجازت دی۔ بہر حال اقتصاد کا مطلب یہی اعتدال کی چال ہے۔ " کتاب الرقاق " کی متعدد حدیثوں میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے " الْاِقْتِصَادُ فِى الْفَقْرِ وَالْغِنى " کی ترغیب اور تاکید آپ پڑھ چکے ہیں، اس کا مطلب یہی ہے کہ تنگدستی اور فراخ دستی دونوں حالتوں میں آدمی اعتدال کی درمیانی چال چلے، اسی کو اس حدیث میں نبوت کا ایک جز بتایا گیا ہے۔
Top