معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 318
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ ، رَفَعَهُ قَالَ : إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الأَعْضَاءَ كُلَّهَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ فَتَقُولُ : اتَّقِ اللَّهَ فِينَا فَإِنَّا نَحْنُ بِكَ ، فَإِنْ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَإِنْ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا . (رواه الترمذى)
کم بولنا اور بری اور فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنا
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے ارشادفرمایا کہ جب آدمی صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء عاجزی اور لجاجت کے ساتھ زبان سے کہتے ہیں کہ (خدا کی بندی ہم پر رحم کر) اور ہمارے بارے میں خدا سے ڈر، کیوں کہ ہم تو تیرے ہی ساتھ بندھے ہوئے ہیں، تو ٹھیک رہی تو ہم ٹھیک رہیں گے، اور اگر تو نے غلط روی اختیار کی، تو ہم بھی غلط روی کریں گے (اور پھر اس کا خمیازہ بھگتیں گے)۔ (جامع ترمذی)

تشریح
اوپر والی حدیث سے معلوم ہوا تھا کہ انسان کے ظاہری اعضا میں سے زیادہ تر زبان ہی کی غلط روی لوگوں کے جہنم میں ڈالے جانے کا باعث ہوگی۔ اس حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ زبان کی اسی خاص نوعیت کی وجہ سے ہر روز انسان کے سارے اعضاء بزبانِ قال پوری عاجزی اور لجاجت کے ساتھ زبان سے درخواست کرتے ہیں کہ خدا کی بندی ہماری صلاح و فلاح اور ہمارے انجام کی اچھائی برائی تجھ سے ہی وابستہ ہے اس لئے ہم پر رحم کر اور خدا سے بے خوف ہو کر بیباکانہ نہ چل، ورنہ تیرے ساتھ ہم بھی اللہ کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ ایک دوسری مشہور حدیث میں اعضاء انسانی میں سے قلب کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ " إِذَا صَلُحَ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ " (جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے تمام جسم اور اس کے سارے اعضاء کا صلاح و فساد اس کے قلب کے صلاح و فساد سے وابستہ ہے) لیکن ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد اور منافات نہیں ہے، اصل تو قلب ہی ہے لیکن ظاہری اعضاء میں چونکہ زبان ہی اس کی خاص ترجمان ہے، اس لئے دونوں کی نوعیت یہی ہے، کہ اگر یہ ٹھیک ہیں تو خیریت ہے اوراگر ان میں فساد اور کجی ہے تو پھر انسان کی خیریت نہیں۔
Top