معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 324
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حِطَّانَ قَالَ : لَقِيتُ أَبَا ذَرٍّ فَوَجَدْتُهُ فِي الْمَسْجِدِ مُخْتَبِئًا بِكِسَاءٍ أَسْوَدَ وَحْدَهُ ، فَقَالَ : يَا أَبَا ذَرٍّ ، مَا هَذِهِ الْوَحْدَةُ؟ فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " الْوَحْدَةُ خَيْرٌ مِنْ جَلِيسِ السَّوْءِ ، وَالْجَلِيسُ الصَّالِحُ خَيْرٌ مِنَ الْوَحْدَةِ ، وَإِمْلَاءُ الْخَيْرِ خَيْرٌ مِنَ السُّكُوتِ ، وَالسُّكُوتُ خَيْرٌ مِنْ إِمْلَاءِ الشَّرِّ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
کم بولنا اور بری اور فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنا
عمران بن حطان تابعی سے روایت ہے کہ میں ایک دن حضرت ابوذر غفاریؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو میں نے اُن کو مسجد میں اس حالت میں دیکھا کہ ایک کالی کملی لپیٹے ہوئے بالکل اکیلے بیٹھے ہیں، میں نے عرض کیا، اے ابوذر! یہ تنہائی ار یکسوئی کیسی ہے؟ (یعنی آپ نے اس طرح بالکل اکیلے اور سب سے الگ تھلگ رہنا کیوں اختیار فرمایا ہے!) انہوں نے جواب دیا، کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے کہ " برے ساتھیوں کی ہمنشینی سے اکیلے رہنا اچھا ہے، اور اچھے ساتھی کے ساتھ بیٹھنا تنہائی سے بہتر ہے، اور کسی کو اچھی باتیں بتانا خاموش رہنے سے بہتر ہے، اور بُری باتیں بتانے سے بہتر خاموش رہنا ہے۔ " (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
اس حدیث میں یہ بات زیادہ صراحت و وضاحت کے ساتھ آ گئی ہے کہ خاموشی کی جو افضلیت ہے وہ بُری باتیں کرنے کے مقابلے میں ہے، ورنہ اچھی باتیں کرنا خاموش رہنے سے افضل ہے، اسی طرح یہ بات بھی صراحت سے آ گئی ہے کہ بُرے لوگوں کے ساتھ اختلاط و ہمنشینی سے بہتر تنہائی ہے، لیکن صلحا کی صحبت تنہائی سے بہتر ہے۔ ف۔۔۔ یہاں ایک نکتہ یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ کے بندوں کی طبیعتیں اور ان کی استعدادیں اور ان کے رجحانات بہت مختلف ہیں، اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں اتنی حکیمانہ وسعت اور ایسی جامعیت ہے کہ مختلف طبائع اور مختلف رجحانات رکھنے والے بندگانِ خدا اپنی اپنی طبیعت اور اپنے اپنے ذوق و رجحان کے مطابق آپ کی اتباع کر کے اللہ کے قرب و رضا کے اعلیٰ کے اعلیٰ مقامات حاصل کر سکتے ہیں۔ مثلاً بعض لوگوں کا مزاج اور ذوق ایسا ہوتا ہے کہ جس قسم کے لوگوں کو وہ پسند نہ کریں اُن سے ملنا جلنا اُن کے لئے شاق اور گراں ہوتا ہے، اور وہ ایسے لوگوں سے اختلاط رکھنے میں اپنا نقصان محسوس کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لئے رسول اللہ ﷺ کی یہ تعلیم اور رہنمائی موجود ہے جس کا ذکر حضرت ابوذر غفاریؓ نے اس حدیث میں فرمایا اور جس پر خود ان کا عمل تھا۔ اور بعض لوگ اپنی فطرت اور طبیعت کے لحاظ سے ایسے ہوتے ہین کہ جن لوگوں کے احوال اور چال چلن کو وہ پسند نہ کریں اُن کی بھی اصلاح اور درستی کے لئے اُن سے ملنا جلنا اور ان کے بُرے اثرات سے اپنی حفاظت کرتے ہوئے اُن کے ساتھ اختلاط رکھنا اور مختلف صورتوں سے اُن کی خدمتیں کرنا اُن کے لئے شاق نہیں ہوتا، بلکہ ان کو اس سے مناسبت ہوتی ہے، اُن کے لیے رسول اللہ ﷺ نے دوسری حدیثوں میں (جو اپنے موقع پر آئیں گی) اسی طرز عمل کی رہنمائی فرمائی ہے، اور اکثر صحابہ کرامؓ جو حضرت ابوذر کی طرح تنہائی پسند نہیں تھے، ان کا طرز عمل وہی تھا پس صحابہ کرامؓ کی سیرت کے بعض پہلوؤں میں اور اسی طرح زمانہ ما بعد کے اہل ایمان اور اہل صلاح کے مختلف طبقوں کے طرز عمل میں جو اس طرح کی رنگا رنگی کہیں کہیں نظر آتی ہے اس کی حقیقت بس اتنی ہی ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی طبیعتوں اور مزاجی مناسبتوں کے قدرتی فرق اور رسول اللہ کی تعلیم و تربیت کی جامعیت اور کاملیت کا وہ قدرتی نتیجہ ہے۔ جو لوگ اپنی تنگ نظری سے سب کو ایک ہی حال اور بالکل ایک ہی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں درحقیقت انہوں نے دین کی وسعت، تعلیم نبوی ﷺ کی جامعیت و کاملیت اور اللہ تعالیٰ کی تکوینی و تشریعی حکمت پر غور نہیں کیا ہے۔
Top