معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 354
عَنْ أُمَّ كُلْثُومٍ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَيْسَ الكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ ، وَيَقُولُ خَيْرًا ، أَوْ وَيَنْمِي خَيْرًا » (رواه البخارى ومسلم)
اختلاف اور فتنہ کو ختم کرنے کے لئے اپنی طرف سے کچھ کہہ دینا جھوٹ نہیں
ام کلثوم (بنت عقبی بن ابی معیط) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ آدمی جھوٹا اور گنہگار نہیں ہے جو باہم لڑنے والے آدمیوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کرے اور اس سلسلے میں (ایک فریق کی طرف سے دوسرے فریق کو) خیر اور بھلائی کی باتیں پہنچائے اور (اچھا تاثر ڈالنے والی) اچھی باتیں کرے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو شخصوں یا دو پارٹیوں کے درمیان سخت نزع اور رنجش ہے، اور ہر فریق دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتا ہے، اور پھر اس کے نتیجے میں بڑے بڑے شر اور فتنے پیدا ہوتے ہیں، کبھی کبھی تو خون خرابہ اور قتل و غارت اور آبرو ریزی تک نوبت پہنچ جاتی ہے، اور عداوت کے جوش میں ہر طرف سے ظلم اور تعدی کو اپنا حق سمجھا جاتا ہے ان حالات میں اگر کوئی مخلص اور بے غرض بندہ ان دونوں برسرجنگ فریقوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کرے، اور اس کے لیے وہ ضرورت محسوس کرے کہ ایک فریق کی طرف سے دوسرے فریق کو ایسی خیر اندیشی کے باتیں پہنچائی جائیں جن سے جنگ و عداوت کی آگ مجھے اور خوش گمانی اور مصالحت کی فضا پیدا ہو، تو اس مقصد کے لیے اگر اللہ کا وہ بندہ ایک فریق کی طرف سے دوسرے فریق کو ایسی خوش کن اور صلح جویانہ باتیں بھی پہنچائے جو واقعے میں اس فریق نے نہ کہی ہوں، اس مخلص بندے کا ایسا کرنا اس جھوٹ میں شمار نہ ہو گا، جو معصیت اور گناہ کبیرہ ہے، بس یہی اس حدیث کا منشاء ہے۔۔ اور یہی مطلب ہے حضرت سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کے اس مقولے کا: " دروغ مصلحت آمیز بہ ار راستی فتنہ انگیز "
Top