معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 357
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْحَمْسَاءِ ، قَالَ : بَايَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَيْعٍ قَبْلَ أَنْ يُبْعَثَ وَبَقِيَتْ لَهُ بَقِيَّةٌ فَوَعَدْتُهُ أَنْ آتِيَهُ بِهَا فِي مَكَانِهِ ، فَنَسِيتُ ، فَذَكَرْتُ بَعْدَ ثَلَاثٍ ، فَإِذَا هُوَ فِي مَكَانِهِ ، فَقَالَ : « لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَيَّ ، أَنَا هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ أَنْتَظِرُكَ » (رواه ابو داؤد)
ایفاء وعدہ اور وعدہ خلافی
عبداللہ بن ابی الحمساء سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے (یعنی آپ کے نبی ہونے سے پہلے) آپ سے خرید و فروخت کا ایک معاملہ کیا (پھر جو کچھ مجھے دینا تھا اس کا کچھ حصہ تو میں نے وہیں دے دیا) اور کچھ اداکرنا باقی رہ گیا، تو میں نے آپ سے وعدہ کیا کہ میں اسی جگہ لے کر آتا ہوں پھر میں بھول گیا اور تین دن کے بعد مجھے یاد آیا (میں اسی وقت لے کر پہنچا) تو دیکھا، کہ آپ اسی جگہ موجود ہیں، آپ نے فرمایا، کہ تم نے مجھے بڑی مشکل میں ڈالا، اور بڑی زحمت دی، میں تمہارے انتظار میں تین دن سے یہیں ہوں۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
گویا نبی ہونے سے پہلے بھی رسول اللہ ﷺ اپنے وعدہ کی ایسی پابندی فرماتے تھے کہ تین دن تک ایک جگہ رہ کر ایک شخص کا انتظار فرماتے رہے، واضح رہے کہ وعدہ کی اس حد تک پابندی کرنا شرعاً ضروری نہیں ہے، (جیسا کہ اس کے بعد والی حدیث سے معلوم بھی ہو جائے گا) لیکن اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی فطرت میں جو " خلق عظیم " ودیعت فرمایا تھا، اس کا تقاضا یہی تھا۔
Top