معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 366
عَنْ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ ، وَهُوَ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الحَيَاءِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « دَعْهُ فَإِنَّ الحَيَاءَ مِنَ الإِيمَانِ » (رواه البخارى ومسلم)
شرم و حیا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا گذر، انصار میں سے ایک شخص پر ہوا، اور وہ اس وقت اپنے بھائی کو حیا کے بارہ میں کچھ نصیحت و ملامت کر رہا تھا، تو آپ نے اس سے فرمایا کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو کیوں کہ حیا تو ایمان کا جز یا ایمان کا پھل ہے۔ (صحیح بخاری و مسلم)

تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انصار میں سے کوئی صاحب تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے شرم و حیا کا وصف خاص طور سے عطا فرمایا تھا، جس کا قدرتی نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ اپنے معاملات میں نرم ہوں گے، سخت گیری کے ساتھ لوگوں سے اپنے حقوق کا مطالبہ بھی نہ کرتے ہوں گے، اور بہت سے موقعوں پر اسی شرم و حیا کی وجہ سے کھل کر باتیں بھی نہ کر پاتے ہوں گے، جیسا کہ اہلِ حیا کا عموماً حال ہوتا ہے، اور اُن کے کوئی بھائی تھے، جو ان کی اس حالت اور روش کو پسند نہیں کرتے تھے، ایک دن یہ بھائی ان صاحب حیا بھائی کو اس پر ملامت اور سرزنش کر رہے تھے کہ تم اس قدر شرم و حیا کیوں کرتے ہو، اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ کا ان دونوں بھائیوں پر گذر ہوا، اور آپ نے ان کی باتیں سن کر ملامت و نصیحت کرنے والے بھائی سے ارشاد فرمایا کہ اپنے ان بھائی کو ان کے حال پہ چھوڑ دو، ان کا یہ حال تو بڑا مبارک حال ہے، شرم و حیا تو ایمان کی ایک شاخ یا ایمان کا پھل ہے اگر اس کی وجہ سے بالفرض دنیا کے مفادات کچھ فوت بھی ہوتے ہوں، تو آخرت کے درجے بے انتہا بڑھتے ہیں۔
Top