معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 375
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُمْ ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ ، حَتَّى إِذَا نَفِدَ عِنْدَهُ ، قَالَ : « مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ ، فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ ، وَمَا أُعْطِىَ أَحَدٌ مِنْ عَطَاءٍ أَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ » (رواه ابو داؤد)
صبر و قناعت اللہ کی وسیع ترین اور عظیم ترین نعمت ہے
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انصار میں سے کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ دے ایک دفعہ کچھ طلب کیا، آپ نے انکو عطا فرما دیا، (لیکن ان کی مانگ ختم نہیں ہوئی) اور انہوں نے پھر طلب کیا، آپ نے پھر ان کو عطا فرما دیا، یہاں تک کہ جو کچھ آپ کے پاس تھا وہ سب ختم ہوگیا، اور کچھ نہ رہا، آپ نے ان انصاریوں سے فرمایا، سنو! جو مال و دولت بھی میرے پاس ہو گا اور کہیں سے آئے گا، میں اس کو تم سے بچا کر نہیں رکھوں گا اور اپنے پاس ذخیرہ جمع نہیں کروں گا (بلکہ تم کو دیتا رہوں گا، لیکن یہ بات خوب سمجھ لو، کہ اس طرح مانگ مانگ کر حاصل کرنے سے آسودگی اور خوش عیشی حاصل نہیں ہوگی، بلکہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ) جو کوئی خود عفیف بننا چاہتا ہے یعنی دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے اپنے کو بچانا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے اور سوال کی ذلت سے اس کو بچا دیتا ہے، اور جو کوئی بندوں کے سامنے اپنی محتاجی ظاہر کرنے سے بچنا چاہتا ہے، یعنی اپنے کو بندوں کا محتاج اور نیاز مند بنانا نہیں چاہتا، تو اللہ تعالیٰ اس کو بندوں سے بے نیاز کر دیتا ہے، اور جو کوئی کسی کٹھن موقع پر اپنی طبیعت کو مضبوط کر کے صبر کرنا چاہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو صبر کی توفیق دے دیتا ہے (اور صبر کی حقیقت اس کو نصیب ہو جاتی ہے) اور کسی بندہ کو بھی صبر سے زیادہ وسیع کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
س حدیث کا خاص سبق یہی ہے کہ بندہ اگر چاہتا ہے کہ وہ دوسرے بندوں کا محتاج نہ ہو، اور ان کے سامنے اس کو دستِ سوال دراز نہ کرنا پڑے، اور مصائب و مشکلات اس کو اپنی جگہ سے ہٹا نہ سکیں، تو اسے چاہئے کہ اپنی استطاعت کی حد تک وہ خود ایسا بننے کی کوشش کرے، اگر وہ ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی پوری پوری مدد فرمائے گا اور یہ سب چیزیں اس کو نصیب ہو جائیں گے۔ حدیث کے آخری حصہ میں فرمایا گیا ہے کہ " کسی بندے کو صبر سے زیادہ وسیع کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی "۔ واقعہ یہی ہے کہ " صبر " دل کی جس کیفیت کا نام ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نہایت وسیع اور نہایت عظیم نعمت ہے، اسی لیے قرآن مجید کی آیت " وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ " میں صبر کو صلوٰۃ یعنی نماز پر بھی مقدم کیا گیا ہے۔
Top