معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 379
عَنْ صُهَيْبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ ، صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ » (رواه مسلم)
صبر و شکر : سچے مؤمن کیلئے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے نعمت پر شکر کرے تو خیر ہے ، مصیبت پر صبر کرے تو خیر ہے
حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندہ مومن کا معاوملہ بھی عجیب ہے، اس کے ہر معاملہ اور ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اگر اس کو خوشی اور راحت و آرام پہنچے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اور اگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ (اس کو بھی اپنے حکیم و کریم رب کا فیصلہ اور اس کی مشیت یقین کرتے ہوئے) اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لئے سراسر خیر اور موجبِ برکت ہوتا ہے۔ (مسلم)

تشریح
اس دنیا میں تکلیف اور آرام تو سب ہی کے لیے ہے لیکن اس تکلیف اور آرام سے اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنا یہ صرف اُن اہل ایمان ہی کا حصہ ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا ایمانی رابطہ قائم کر لیا ہے کہ وہ چین و آرام اور مسرت و خوشی کی ہر گھڑی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں، اور جب کسی رنج اور دکھ میں مبتلا کئے جاتے ہیں، اور کوئی ناخوشگواری ان کو پیش آتی ہے، تو وہ بندگی کی پوری شان کے ساتھ صبر کرتے ہیں۔ اور چونکہ دکھ سکھ اور خوشی و ناخوشی ایسی چیزیں ہیں جن سے انسان کی زندگی کسی وقت بھی خالی نہیں رہتی اس لیے ان بندگانِ خدا کے قلوب بھی صبر و شکر کی کیفیات سے ہمہ دم معمور رہتے ہیں۔ اس دنیا میں دکھ اور رنج بھی ہے اور آرام اور خوشی بھی، شادی بھی ہے اور غمی بھی، شیرینی بھی ہے اور تلخی بھی، سردی بھی ہے او رگرمی بھی، خوشگواری بھی ہے اور ناخوشگواری بھی، اور سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اور اسی کے حکم اور فیصلہ سے ہوتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے بندوں کا حال یہ ہونا چاہئے کہ جب کوئی دکھ اور مصیبت پیش آ جائے تو وہ مایوسی اور سراسیمگی کا شکار نہ ہوں بلکہ ایمانی صبر و ثبات کے ساتھ اس کا استقبال کریں، اور دل میں اس یقین کو تازہ کریں کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، جو ہمارا حکیم اور کریم رب ہے، اور وہی ہم کو اس دکھ اور مصیبت سے نجات دینے والا ہے۔ اسی طرح جب ان کے حالات سازگار ہوں اور ان کی چاہتیں ان کو مل رہی ہیں اور خوشی اور شادمانی کے سامان میسر ہوں تو بھی وہ اس کو اپنا کمال اور اپنی قوت بازو کا نتیجہ نہ سمجھیں بلکہ اس وقت اپنے دل میں اس یقین کو تازہ کریں کہ یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی بخشش ہے، اور وہ جب چاہے اپنی بخشی ہوئی ہر نعمت چھین بھی سکتا ہے، اس لئے ہر نعمت پر اس کا کر ادا کریں۔ یہ اسلام کی خاص تعلیمات میں سے ہے اور رسول اللہ ﷺ نے طرح طرح سے اس کی ترغیب اور تعلیم دی ہے، اس تعلیم پر عمل کرنے کا ایک نتیجہ تو یہ ہوتا ہے کہ بندہ ہر حال میں خدا سے وابستہ رہتا ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی مصیبتوں اور ناکامیوں سے شکست نہیں کھاتا اور رنج و غم کے تسلسل سے بھی اس کی جان نہیں گھلتی اور مایوسی اور دل شکستگی اس کی عملی قوتوں کو ختم نہیں کر سکتی۔ اس سلسلے کی رسول اللہ ﷺ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے:
Top