معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 384
عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ ، قَالَتْ : سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ، قَالَ : يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِنِّي بَاعِثٌ بَعْدَكَ أُمَّةً إِنْ أَصَابَهُمْ مَا يُحِبُّونَ حَمِدُوا وَشَكَرُوا ، وَإِنْ أَصَابَهُمْ مَا يَكْرَهُونَ احْتَسَبُوا وَصَبَرُوا ، وَلَا حِلْمَ وَلَا عَقْلَ . ، فَقَالَ : يَا رَبِّ كَيْفَ يَكُونُ هَذَا لَهُمْ وَلَا حُلْمٍ وَلَا عَقْلَ؟ ، قَالَ : أُعْطِيهِمْ مِنْ حِلْمِي وَعِلْمِي " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
امت محمدی ﷺ کے صبر و شکر کا سر چشمہ ان کی عقلیت نہیں بلکہ اللہ تعالی کا فضل اور اس کی خاص عطا ہے
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی ام الدرداءؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں، مجھ سے میرے شوہر ابو الدرداء نے بیان کیا کہ میں نے رسولِ خدا سے سنا، آپ بیان فرماتے تھے، کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ سے فرمایا کہ اے عیسیٰ! میں تمہارے بعد ایک امت پیدا کروں گا جس کی سیرت یہ ہوگی کہ جب ان کو ان کی چاہت اور خواہش کے مطابق نعمتیں ملیں گی تو وہ جذبہ شکر سے معمور ہو کر اللہ کی حمد و ثنا کریں گے، اور جب اُن پر ناخوشگوار احوال آئیں گے تو وہ صبر سے ان کا استقبال کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کے طالب ہوں گے حالانکہ ان میں (کوئی خاص درجہ کی) بردباری اور دانشمندی نہ ہوگی۔ حضرت عیسیٰؑ نے عرض کیا کہ، جب ان میں بردباری اور دانشمندی نہ ہوگی، تو ان سے خوشحالیوں میں شکر، اور مصائب پر صبر کیونکر ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں ان کو اپنے حلم اور اپنے علم میں سے کچھ حصہ دوں گا۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
مصیبت میں مایوس، دل شکستہ اور سراسیمہ ہو جانا اور نعمت اور خوشحالی میں مست ہو کر اپنی اصل حقیقت کو اور خدا کو بھی بھول جانا انسانوں کی عام کمزوری ہے، اسی کو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: " إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا ﴿١٩﴾ إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا﴿٢٠﴾ وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا " اب اگر کسی امت اور کسی گروہ کی سیرت ایسی ہو کہ وہ مصیبتوں میں صابر اور نعمتوں پر شاکر ہو، تو اللہ تعالیٰ کا اس پر خاص فضل ہے، اور یہ اس کا بڑا امتیاز ہے، رسول اللہ ﷺ کے عام صحابہ اور قرون ما بعد کے صلحاء مومنین کو اللہ تعالیٰ نے جو خاص روحانی صفات عطا فرمائیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کو صبر و شکر کی دولت سے بہرہ ور فرمایا، اور ان کے اس صبر و شکر کا سرچشمہ ان کی عقلیت اور علم کی وسعت نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس نے اپنے علم و حلم کے کچھ ذرے ان بندوں کو عطا فرما دئیے ہیں، اور یہ صبر و شکر اسی کے ثمرات ہیں۔ جس طرح اس امت کے اور بہت سے امتیازات اور خصائص کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء سابقین سے فرمایا، اسی طرح صبر و شکر میں اس کے امتیاز کا ذکر اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا تا کہ انہیں معلوم ہو کہ انسانوں کی روحانی تربیت اور سیرت سازی کا جو کام انہوں نے اور ان سے پہلے اللہ کے پیغمبروں نے کیا اس کی تکمیل ان کے بعد آنے والے اللہ کے پیغمبر کے ذریعہ ہونے والی ہے، اور اس کے نتیجہ میں ایک ایسی امت ظہور میں آنے والی ہے، جو صبر و شکر کے مقام پر فائز ہوگی، اور اللہ تعالیٰ کے علم و حلم سے وہ بہرہ یاب ہوگی۔
Top