معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 385
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « يَدْخُلُ الجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ ، هُمُ الَّذِينَ لاَ يَسْتَرْقُونَ ، وَلاَ يَتَطَيَّرُونَ ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ » (رواه البخارى ومسلم)
توکل اور رضا بالقضا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ میری امت میں سے ستر ہزار بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے وہ، وہ بندگانِ خدا ہوں گے جو منتر نہیں کراتے، اور شگونِ بد نہیں لیتے، اور اپنے پروردگار پر توکل کرتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
ہم انسانوں کو جو حقیقتیں حضرات انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ معلوم ہوئی ہیں، ان میں سے ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ اس کارخانہ ہستی میں جو کچھ ہوتا ہے اور جس کو جو کچھ ملتا یا نہیں ملتا ہے، سب براہِ راست اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلہ سے ہوتا ہے، اور ظاہری اسباب کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ چیزوں کے ہم تک پہنچنے کے لیے اللہ ہی کے مقرر کئے ہوئے صرف ذریعے اور راستے ہیں، جس طرح کھروں میں پانی جن نلوں کے ذریعہ پہنچتا ہے وہ پانی پہنچانے کے صرف راستے ہیں، پانی کی تقسیم میں ان کا اپنا کوئی دخل اور کوئی حصہ نہیں ہے، اسی طرح عالمِ وجود میں کار فرمائی اسباب کی بالکل نہیں ہے، بلکہ کارفرما اور مؤثر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کا حکم ہے۔ اس حقیقت پر دل سے یقین کر کے اپنے تمام مقاصد اور کاموں میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد اور بھروسہ کرنا، اسی سے لو لگانا، اسی کی قدرت اور اسی کے کرم پر نظر رکھنا، اسی سے امید یا خوف ہونا اور اسی سے دعا کرنا، بس اسی طرزِ عمل کا نام دین کی اصطلاح میں توکل ہے۔ توکل کی اصل حقیقت بس اتنی ہی ہے۔ ظاہری اسباب و تدابیر کا ترک کر دینا، یہ توکل کے لیے لازم نہیں ہے۔ حضرات انبیاء علیہم السلام خاص کر سید الانبیاء ﷺ اور آپ کے صحابہ کرامؓاور ہر دور کے عارفین کاملین کا توکل یہی تھا، یہ سب حضرات اس کارخانہ ہستی کے اسبابی سلسلے کو اللہ تعالیٰ کے امر و حکم کے ماتحت اور اس کی حکمت کا تقاضا جانتے ہوئے عام حالات میں اسباب کا بھی استعمال کرتے تھے، لیکن دل کا اعتماد اور بھروسہ صرف اللہ ہی کے حکم ہپر ہوتا تھا، اور جیسا کہ عرض کیا گیا وہ اسباب کو اپنی کے نلوں کی طرح صرف ایک ذریعہ ہی جانتے تھے، اور اسی واسطے وہ ان اسباب کے استعمال میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے احکام کی تعمیل کا پورا پورا لحاظ رکھتے تھے، نیز یہ بھی یقین رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی پابن نہیں ہے، وہ اگر چاہتے تو ان کے بغیر بھی سب کچھ کر سکتا ہے، اور کبھی کبھی وہ اللہ تعالیٰ کی اس قدرت کا مشاہدہ اور تجربہ بھی کرتے تھے۔ الغرض ترکِ اسباب نہ توکل کی حقیقت میں داخل ہے نہ اس کے لیے شرط ہے، ہاں اگر غلبہ حال سے اللہ کا کوئی صاحب یقین بندہ ترکِ اسباب کر دے تو قابل اعتراض بھی نہیں، بلکہ ان کے حق میں یہی کمال ہی ہو گا، اسی طرح اگر اسباب سے دل کا تعلق توڑنے کے لیے اور بجائے اسباب کے اللہ پر یقین پیدا کرنے کے لیے یا دوسروں کو اس کا مشاہدہ اور تجربہ کرانے کے لیے کوئی بندہ خدا ترکِ اسباب کا رویہ اختیار کر لے، تو یہ بھی بالکل درست ہو گا، لیکن توکل کی اصل حقیقت صرف اسی قدر ہے جو اوپر عرض کی گئی، اور قرآن و حدیث میں اسی کی ترغیب و دعوت دی گئی ہے اور اسی کے حاملین کی مدح و ثنا کی گئی ہے، اور بلا شبہ یہ توکل، ایمان اور توحید کے کمال کا لازمی ثمرہ ہے، جس کو توکل نصیب نہیں یقیناً اس کا ایمان اور اس کی توحید کامل نہیں ہے۔ پھر توکل سے بھی آگے رضا بالقضا کا مقام ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بندے پر جو بھی اچھے یا بُرے احوال آئیں، وہ یہ یقین کرتے ہوئے کہ ہر حال کا بھیجنے والا میرا مالک ہی ہے، اس کے حکم اور فیصلہ پر دل سے راضی اور شاد رہے، اور راحت و عافیت کے دنوں کی طرح تکلیف و مصیبت کی گھڑیوں میں بھی اس کے خدا آشنا دل کی صدا یہی ہو، کہ: ہر چہ از دوست میرسد نیکوست ان تمہیدی سطروں کے بعد توکل اور رضا بالقضاء کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی چند حدیثیں پڑھئے: تشریح۔۔۔ اس حدیث کا مطلب صحیح طور پر سمجھنے کے لیے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت مبعوث ہوئے اس وقت اہل عرب میں دوسری بہت سی چھوٹی بڑی قابلِ اصلاح برائیوں کے علاوہ یہ دو برائیاں بھی عام طور پر رائج تھیں۔ ایک یہ کہ جب وہ خود یا ان کے بچے کسی بیماری اور دکھ درد میں مبتلا ہوتے، تو اس وقت کے منتر کرنے والوں سے منتر کراتے اور سمجھتے کہ یہ جنتر منتر دکھ اور بیماری کو بھگانے کی ایک آسان تدبیر ہے (اور یہ منتر عموماً جاہلیت کے زمانہ ہی کے تھے) اور دوسرے یہ کہ جب وہ کوئی ایسا کام کرنے کا ارادہ کرتے جس میں نفع اور نقصان، ہار اور جیت دونوں کا احتمال ہوتا تو شگون لیتے اور اگر شگون بُرا نکلتا تو سمجھتے کہ یہ کام ہم کو راست نہیں آئے گا، اس لئے پھر اس کو نہیں کرتے تھے، الغرض شگون کو بھی وہ نقصان سے بچنے کی ایک آسان تدبیر جانتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں چیزوں کی مختلف موقعوں پر مذمت فرمائی اور تعلیم دی کہ بیماری دور کرنے کے لیے منتر نہ کرائے جائیں، اور شگونِ بد لینے اور اس کا اثر قبول کرنے کا یہ طریقہ بھی چھوڑا جائے، اور یقین رکھا جائے کہ بیماری اور تندرستی اور نفع نقصان سب کچھ اللہ ہی کے اختیار میں ہے، لہذا اس پر بھروسہ کیا جائے اور اپنے مقاصد اور ضروریات کے لیے صرف وہی اسباب اور تدابیر استعمال کی جائیں جو اس کی مرضی کے خلاف نہیں ہیں، کیوں کہ اصل کارفرما اور موثر اسباب نہیں ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کا حکم ہے، لہذا کسی مقصد کے لیے ایسے اسباب استعمال کرنا جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں، سخت حماقت ہے۔ پس اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ جنت میں بے حساب جانے والے یہ بندگانِ خدا وہ ہوں گے جنہوں نے اللہ پر اعتماد اور بھروسہ کر کے منتر اور شگونِ بد کے ان غلط طریقوں کو چھوڑ دیا۔ بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ سمجھا ہے کہ یہ لوگ اسباب کا استعمال مطلقاً ترک کر کے توکل کرنے والے ہوں گے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، اگر یہ مقصد ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس کی صراحت فرماتے، اس موقع پر اسباب میں سے صرف ان ہی دو چیزوں (منتر اور شگونِ بد) کے ذکر کرنے سے (جو کہ شریعت میں خود ہی ممنوع ہیں) صاف معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کا مطلب یہی ہے کہ یہ بندے وہ ہوں گے جو اپنے مقاصد اور ضروریات میں اللہ تعالیٰ ہی پر اعتماد اور بھروسہ کرنے کی وجہ سے اور اسی کی مشیت اور اسی کے حکم کو اصل کار فرما اور مؤثر سمجھنے کے سبب سے اس اسباب کو استعمال نہیں کرتے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں۔ پس یہ حدیث خود ہی اس کی دلیل ہے کہ جو اسباب اللہ تعالیٰ نے جن مقاصد کے لیے اپنی حکمت سے مقرر فرمائے ہیں اور شریعت نے ان کی اجازت دی ہے ان کا ترک کر دینا توکل کا مقتضی نہیں ہے، بلکہ صرف ان اسباب اور تدابیر کا ترک کرنا توکل کا اقتضا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں، اور شریعت نے جن کو غلط قرار دیا ہے۔ (۱) البتہ توکل کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسباب کو بس ایک راستہ اور اللہ کی حکمت کا پردہ سمجھے اور دل کا تعلق بس اللہ ہی سے ہو، اور یہی چیز متوکل اور غیر متوکل کے طرزِ عمل میں ایک محسوس فرق بھی پیدا کر دیتی ہے۔ اس حدیث میں جنت میں بے حساب داخل ہونے والے رسول اللہ ﷺ کے امتیوں کی تعداد ستر ہزار بتلائی گئی ہے، یہ تعداد صرف ان کی ہے جو اس فضیلت کے درجہ اول میں مستحق ہوں گے، ورنہ ایک دوسری حدیث میں یہ اضافہ بھی آیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ستر ستر ہزار اور بھی بے حساب ہی جنت میں داخل کئے جائیں گے۔ علاوہ ازیں یہ بات کئی دفعہ ذکر کی جا چکی ہے کہ عربی زبان اور محاورات میں یہ عدد صرف کثرت اور غیر معمولی بہتات کے اظہار کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، اور اس حدیث میں بھی غالباً ایسا ہی ہے۔ واللہ اعلم۔ یہ حدیث صرف ایک پیشن گوئی اور آخرت میں پیش آنے والے ایک واقعہ کی صرف خبر ہی نہیں ہے بلکہ حدیث کا اصل منشاء یہ ہے کہ آپ کے جن امتیوں کو یہ حدیث پہنچے وہ اپنی زندگی کو توکل والی زندگی بنانے کی کوشش کریں، تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جنت میں بے حساب داخل ہونے والوں کی فہرست میں ان کا نام بھی چڑھ جائے۔
Top