معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 388
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا ، فَقَالَ : يَا غُلاَمُ احْفَظِ اللَّهَ يَحْفَظْكَ ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ ، وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ ، رُفِعَتِ الأَقْلاَمُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ . (رواه احمد والترمذى)
رسول اللہ ﷺ کی وصیت کہ اپنی ضرورتوں کیلئے صرف اللہ پر نظر رکھو اور اسی سے اپنی حاجتیں طلب کرو
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ہی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھا کہ آپ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، اے لڑکے تو اللہ تعالیٰ کا خیال رکھ (یعنی اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے حقوق کی ادائیگی سے غافل نہ ہو) اللہ تعالیٰ تیرا خیال فرمائے گا، اور دنیا و آخرت کی آفات و بلیات سے تیری حفاظت کرے گا، تو اللہ کو یاد رکھ، جیسا کہ یاد رکھنا چاہئے، اس کو تو اپنے سامنے پائے گا، اور جب تو کسی چیز کو مانگنا چاہے تو بس اللہ سے مانگ، اور جب کسی ضرورت اور مہم میں تو مدد کا محتاج اور طالب ہو تو اللہ ہی سے امداد و اعانت طلب کر، اور اس بات کو دل میں بٹھا لے کہ اگر ساری انسانی برادری بھی باہم متفق ہو کر اور جڑ کر چاہے کہ تجھ کو کسی چیز سے نفع پہنچائے تو صرف اسی چیز سے تجھ کو نفع پہنچا سکے گی جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے مقدر کر دی ہے، اس کے سوا کسی چیز سے نہیں اور اسی طرح اگر ساری انسانی دنیا تجھ کو کسی چیز سے نقصان پہنچانا چاہے تو صرف اسی چیز سے نقصان پہنچا سکے گی جس سے نقصان پہنچنا اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی تیرے لئے مقدر کر دیا ہے، اس کے سوا کسی چیز سے تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا جا سکے گا، اُٹھ چکے قلم اور خشک بھی ہو چکے صحیفے۔ (مسند احمد و جامع ترمذی)

تشریح
حدیث کا مطلب و منشاء اور اس کی روح یہی ہے کہ ہر قسم کا نفع و نقصان اور دکھ آرام صرف اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، اس کے سوا کسی کے بس میں کچھ بھی نہیں، حتی کہ اگر ساری دنیا کے انسان مل کر کسی بندہ کو کوئی نفع یا نقصان یا دکھ یا آرام پہنچانا چاہیں تب بھی اللہ کے حکم اور اس کے فیصلے کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے، وجود میں وہی آئے گا اور وہی ہو گا جس کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے، اور قلم تقدیر جس کو اب سے بہت پہلے لکھ کر فارغ ہو چکا ہے، اور اس کی تحریر خشک بھی ہو چکی ہے۔ ایسی صورت میں اپنی حاجات کے لیے کسی مخلوق سے سوال کرنا اور اس سے مدد مانگنا صرف نادانی اور گمراہی ہے۔ لہذا جو مانگنا ہو اللہ وے مانگو اور اپنی حاجات کے لیے اسی کے آگے ہاتھ پھیلاؤ، اور اس سے لینے کی صورت یہ ہے کہ اس کو اور اس کے احکام و حقوق کو یاد رکھو، وہ تمہیں یاد رکھے گا اور تمہاری ضرورتیں پوری کرے گا، اور دنیا و آخرت میں تم پر فضل فرمائے گا۔ چونکہ کتاب الایمان میں تقدیر کے بیان میں پوری وضاحت اور تفصیل سے بتلایا جا چکا ہے کہ " تقدیر " کا مطلب کیا ہے، اور تقدیر کو ماننے کے باوجود عمل اور تدبیر کی ضرورت کیوں ہے، اس لیے اس شبہ اور وسوسہ کے متعلق یہاں کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ ناظرین میں سے اگر کسی کو اس بارے میں خلجان ہو تو معارف الحدیث حصہ اول میں تقدیر کا بیان پڑھ لیا جائے۔
Top