معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 403
عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : قِيلَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يَعْمَلُ الْعَمَلَ مِنَ الْخَيْرِ ، وَيَحْمَدُهُ النَّاسُ عَلَيْهِ؟ وَفِىْ رِوَايَةٍ وَيُحِبُّهُ النَّاسُ عَلَيْه ، قَالَ : « تِلْكَ عَاجِلُ بُشْرَى الْمُؤْمِنِ » (رواه مسلم)
اعمالِ صالحہ کی وجہ سے لوگوں میں اچھی شہرت ، اللہ کی ایک نعمت ہے
حضرت ابوذر غفاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کیا ارشاد ہے، ایسے شخص کے بارے میں جو کوئی اچھا عمل کرتا ہے اور اس کی وجہ سے لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں؟ اور ایک روایت میں ہے کہ پوچھنے والے نے یوں عرض کیا کہ کیا ارشاد ہے ایسے شخص کے بارے میں جو کوئی اچھا عمل کرتا ہے اور اس کی وجہ سے لوگ اس سے محبت کرتے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا، یہ تو مؤمن بندہ کی نقد بشارت ہے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
ریا اور شہرت طلبی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ بالا قسم کے ارشادات نے صحابہ کرامؓ کو اتنا ڈرایا دیا تھا کہ ان میں سے بعض کو یہ شبہ ہونے لگا کہ جس نیک عمل پر دنیا کے لوگ عمل کرنے والے کی تعریفیں کریں اور اس کی نیکی کا چرچا ہو، اور لوگ اس کو اللہ کا نیک بندہ سمجھ کر اس سے محبت کرنے لگیں، تو شاید وہ عمل بھی اللہ کے یہاں مقبول نہ ہو گا، کیوں کہ اس عمل کرنے والے کو دنیا میں شہرت اور محبت کا صلہ ہی مل گیا۔ اسی کے بارہ میں رسول اللہ ﷺ سے یہ سوال کیا گیا تھا جس کے جواب میں آپ نے فرمایا " تِلْكَ عَاجِلُ بُشْرَى الْمُؤْمِنِ " جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی نیک عملی کی شہرت ہو جانا اور لوگوں کا اس کی تعریف یا اس سے محبت کرنا کوئی بری بات نہیں ہے، بلکہ سمجھنا چاہئے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آخرت میں ملنے والے اصل انعام سے پہلے اس دنیا میں نقد صلہ اس بندہ کی مقبولیت و محبوبیت کی ایک خوشخبری کی علامت ہے۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ کو ایک دفعہ یہ واقعہ پیش آیا کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھ رہے تھے، اسی حال میں ایک شخص آیا اور اس نے ان کو نماز پڑھتا ہوا دیکھا، وہ کہتے ہیں کہ میرے دل میں اس بات سے خوشی پیدا ہوئی کہ اس شخص نے مجھے نماز جیسے اچھے کام میں مشغول پایا، انہوں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا (تا کہ خدانخواستہ اگر یہ بھی ریاکاری کی کوئی شاخ ہو تو اس سے توبہ و استغفار کیا جائے) آپ نے ان کو اطمینان دلایا کہ یہ ریا نہیں ہے بلکہ تم کو اس صورت میں خود کی نیکی کا بھی ثواب ملے گا اور جلوت کی نیکی کا بھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو اعمالِ صالحہ اخلاص کے ساتھ اللہ ہی کے لئے کئے جائیں، لیکن عمل کرنے والے کے ارادہ اور کوشش کے بغیر اللہ کے دوسرے بندوں کو ان کا علم ہو جائے اور پھر اُس کو اس سے خوشی ہو، تو یہ اخلاص کے منافی نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کوئی نیک عمل اس لئے لوگوں کے سامنے کرتا ہے کہ وہ اس کی اقتدار کریں اور اس کو سیکھیں تو یہ بھی ریا نہ ہو گا بلکہ اس صورت میں اللہ کے اس بندہ کو تعلیم و تبلیغ کا بھی ثواب ملے گا، بہت سی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بہت سے اعمال میں یہ مقصد بھی ملحوظ ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقتِ اخلاص نصیب فرمائے، اپنا مخلص بندہ بنائے اور ریا سمعہ جیسے مہلکات سے ہمارے قلوب کی حفاظت فرمائے۔ اَللَّهُمَّ آمِيْن!۔ حصہ دوم مکمل ہوا فَالْحَمْدُ لِلهِ الَّذِىْ بِعَزَّتِهِ وَجَلَالِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ
Top