معارف الحدیث - کتاب الطہارت - حدیث نمبر 404
عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ ، وَسُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَآَنِ - أَوْ تَمْلَأُ - مَا بَيْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ ، وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ ، كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَايِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا » (رواه مسلم)
طہارت جزو ایمان ہے
ابو مالک اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کہ طہارت و پاکیزگی جوز ایمان ہے اور کلمہ الحمد للہ میزان عمل کر بھر دیتا ہے اور سبحان اللہ والحمدللہ بھر دیتے ہیں آسمان کو اور زمین کو، اور نماز نور ہے اور صدقہ دلیل و برہان ہے اور صبر اجالا ہے اور قرآن یا تو حجت ہے تمہارے حق میں یا حجت ہے ہے تمہارے خلاف، ہر آدمی صبح کرتا ہے پھر وہ اپنی جان کا سودا کرتا ہے پھر یا تو اسے نجات دلا دیتا ہے یا اس کو ہلاک کر دیتا ہے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
طہارت و پاکیزگی کی حقیقت اور دین میں اس کا مقام اسلام میں طہارت و پاکیزگی کی حیثیت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ نماز، تلاوتِ قرآن اور طوافِ کعبہ جیسی عبادات کے لئے لازمی شرط ہے، بلکہ قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بجائے خود بھی دین کا ایک اہم شعبہ اور بذات خود بھی مطلوب ہے۔ قرآن مجید کی آیت ١ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ۰۰۲۲۲ (۱) (اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاک و صاف رہنے والے اپنے بندوں کو محبوب رکھتا ہے)۔ اور قبا کی بستی میں رہنے والے اہل ایمان کی تعریف میں قرآن مجید کا ارشاد فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ (۲) (اس میںہمارے ایسے بندے ہیں۔ جو بڑے پاکیزگی پسند ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب پاک و صاف رہنے والے بندوں سے محبت کرتا ہے)۔ صرف ان ہی دو آیتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام میں طہارت و پاکیزگی کی بجائے خود کتنی اہمیت ہے۔ اس طرح آگے پہلے ہی نمبر صحیح مسلم کی جو حدیث درج کی جارہی ہے اس کے پہلے فقرے " الطُّهُوْرُ شَطْرُ الْإِيْمَانِ " کا گویا لفظی ترجمہ ہی یہ ہے کہ طہارت و پاکیزگی اسلام کا ایک حکم ہی نہیں بلکہ وہ دین و ایمان کا ایک اہم جزو ہے۔ اور ایک دوسری حدیث میں اس کو " نصف ایمان " فرمایا گیا۔ ہمارے استاذ الاساتذہ اور شیخ المشائخ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ کی ایک نفیس تحقیق قابل ذکر ہے، اپنی بے نظیر کتاب " حجۃ اللہ البالغۃ " میں فرماتے ہیں: " کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے خاص فضل سے یہ حقیقت سمجھا دی ہے کہ فلاح و سعادت جس شاہراہ کی طرف انبیاء علیہم السلام کی بعثت ہوئی (جس کا نام شریعت ہے) اگرچہ اس کے بہت سے ابواب ہیں اور ہر باب کے تحت سینکڑوں احکام ہیں لیکن اپنی بے پناہ کثرت کے باوجود وہ سب بس ان چار اصولی عنوانوں کے تحت آتے ہیں طہارت، اخبات، سماحت، عدالت۔ (۳) پھر شاہ صاحب نے ان میں سے ہر ایک کی حقیقت بیان کی ہے جس کے مطالعے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ بلا شبہ ساری شریعت بس ان ہی چار حصوں میں منقسم ہے۔ یہاں ہم شاہ صاحب کے کلام کے صرف اس حصے کا خلاصہ درج کرتے ہیں جس میں انھوں نے طہارت کی حقیقت بیان فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں کہ: ایک سلیم الفطرت اور صحیح المزاج انسان جس کا قلب بہیمت کے سفلی تقاضوں سے مغلوب اور ان میں مشغول نہ ہو، جب وہ کسی نجاست سے آلودہ ہو جاتا ہے یا اس کو پیشاب یا پاخانہ کا سخت تقاضا ہوتا ہے یا وہ جماع وغیرہ سے فارغ ہوا ہوتا ہے وہ اپنے نفس میں ایک خاص قسم کا انقباض و تکدر اور گرانی و بے لطفی اور اپنی طبیعت میں سخت ظلمت کی ایک کیفیت محسوس کرتا ہے، پھر جب وہ اس حالت سے نکل جاتا ہے مثلاً پیشاب یا پاخانہ کا جو سخت تقاضا تھا اس سے وہ فارغ ہو جاتا ہے اور اچھی طرح استنجا اور طہارت کر لیتا ہے یا اگر وہ جماع سے فارغ ہوا تھا تو غسل کر لیتا اور اچھے صاف ستھرے کپڑے پہن لیتا ہے اور خوشبو لگا لیتا ہے تو نفس کے انقباض و تکدر اور طبیعت کی ظلمت کی وہ کیفیت جاتی رہتی ہے اور اس کے بجائے اپنی طبیعت میں وہ ایک انشراح و انبساط اور سرور فروخت کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ بس دراصل پہلی کیفیت کا نام " حدث " (ناپاکی) اور دوسری کا نام " طہارت " (پاکی و پاکیزگی) ہے، اور انسانوں میں جن کی فطرت سلیم اور جن کا وجدان صحیح ہے وہ ان دونوں حالتوں اور کیفیتوں کے فرق کو واضح طور پر محسوس کرتے ہیں اور اپنی طبیعت و فطرت کے تقاضے سے " حدث " کی حالت کو ناپسند اور دوسری کو (یعنی " طہارت " کی حالت) پسند کرتے ہیں۔ اور نفس انسانی کی یہ طہارت کی حالت ملاء اعلیٰ یعنی " ملئكة الله " کی حالت سے بہت مشابہت و مناسبت رکھتی ہے کیوں کہ وہ دائمی طور پر بہیمی آلودگیوں سے پاک و صاف اور نورانی کیفیات سے شاداں و فرحاں رہتے ہیں اور اسی لئے حسبِ امکان طہارت و پاکیزگی کا اہتمام و دوام انسانی روح کو ملکوتی کمالات حاصل کرنے اور الہامات و منامات کے ذریعے ملاء اعلیٰ سے استفادہ کرنے کے قابل بنا دیتا ہے۔ اور اس کے برعکس جب آدمی حدث اور ناپاکی کی حالت میں ڈوبا رہتا ہے تو اس کو شیاطین سے ایک مناسبت و مشابہت حاصل ہو جاتی ہے اور شیطانی وساوس کی قبولیت کی ایک خاص استعداد اور صلاحیت اس میں پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی روح کو ظلمت گھیر لیتی ہے "۔ (حجۃ اللہ البالغہ ص ۵۴ ج ۱) شاہ صاحب کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ طہارت اور حدث دراصل انسانی روح اور طبیعت کی مذکورہ بالا دو حالتوں کا نام ہے اور ہم جن چیزوں کو حدث یا ناپاکی اور طہارت یا پاکیزگی کہتے ہیں وہ دراصل ان کے اسباب و موجبات ہیں اور شریعت ان ہی اسباب پر احکام جاری کرتی ہے اور انہی سے بحث کرتی ہے۔ امید ہے کہ طہارت کی حقیقت اور روح انسانی کے لئے اس کی ضرورت و اہمیت سمجھنے کے لئے شاہ صاحب کا یہ کلام ان شاء اللہ کافی ہو گا۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ طہارت و پاکیزگی شریعت کا پورا چوتھائی حصہ ہے۔ پھر اسی کتاب " حجۃ اللہ البالغہ " کے ایک دوسرے مقام پر جہاں طہارت کے احکام اور ان کے اسرار ہی کا بیان ہے فرماتے ہیں: طہارت کی تین قسمیں ہیں، ایک حدث سے طہارت (یعنی جن حالتوں میں غسل یا وضو واجب یا مستحب ہے۔ ان حالتوں میں غسل یا وضو کر کے شرعی طہارت و پاکیزگی حاصل کرنا۔ دوسرے ظاہری نجاست اور پلیدی سے جسم یا اپنے کپڑوں کو یا جگہ کو پاک کرنا۔۔۔ تیسرے جسم کے مختلف حصوں میں جو گندگیاں اور میل و کچیل پیدا ہوتا رہتا ہے اس کی صفائی کرنا (جیسے دانتوں کی صفائی ناک کے نتھنوں کی صفائی، ناخن اور زیر ناف بالوں کی صفائی) آگے طہارت کے متعلق جو حدیثیں درج ہوں گی ان میں سے بعض کا تعلق مطلق طہارت سے ہو گا جو ان تینوں قسموں پر حاوی ہے اور بعض کا تعلق کسی ایک خاص قسم سے ہو گا ....... اس تمہیدی بیان کے بعد اب طہارت سے متعلق حدیثیں پڑھئے۔ تشریح۔۔۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کا ایک خطبہ ہے جس میں آپ ﷺ نے دین کے بہت سے حقائق بیان فرمائے ہیں اس کا صرف پہلا جزو اور پہلا فقرہ (الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ) طہارت سے متعلق ہے اور اسی وجہ سے یہ حدیث کتب حدیث میں " كتاب الطهارة " میں درج کی جاتی ہے شطر کے معنی نصف اور آدھے کے ہیں بلکہ اسی مضمون کی ایک اور حدیث جو امام ترمذی نے ایک دوسرے صحابی سے روایت ہے اس میں " الطُّهُورُ نِصْفُ الْإِيمَانِ " (۱) ہی کے الفاظ ہیں لیکن اس عاجز کے نزدیک شطر و نصف دونوں لفظوں کا مطلب یہاں یہی ہے کہ طہارت و پاکیزگی ایمان کا خاص جزو اور اس کا اہم شعبہ اور حصہ ہے اور حضرت شاہ ولی اللہ کا جو کلام اوپر نقل ہوا ہے اس سے یہ حقیقت اتنی واضح اور روشن ہو چکی ہے جس پر کسی اضافہ کی ضرورت نہیں۔ طہارت و پاکیزگی کی یہ اہمیت بیان فرمانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تمہید کا اجر و ثواب اور اس کی فضیلت بیان فرمائی ہے، تسبیح یعنی سبحان اللہ کہنے کا مطلب اپنے اس یقین کا اظہار اور اس کی شہادت ادا کرنا ہوتا ہے کہ اللہ کی مقدس ذات ہر اس بات سے پاک اور برتر ہے جو اس کی شان الوہیت کے مناسب نہ ہو اور تحمید یعنی الحمدللہ کہنے کا مطلب اپنے یقین کا اظہار اور اس شہادت کا ادا کرنا ہوتا ہے کہ ساری خوبیاں اور سارے کمالات جن کی بنا پر کسی کی حمد و ثناء کی جا سکتی ہے صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات میں ہے اور اس لئے بس ساری حمد و ستائش بس اسی کے لئے ہے یہی تسبیح و حمد حق تعالیٰ کی نورانی اور معصوم مخلوق فرشتوں کا خاص وظیفہ ہے۔ قرآن مجید میں خود فرشتوں کا یہ بیان خود ان ہی کی زبانی نقل کیا گیا ہے۔ " نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ " (خدا وندا! ہم تیری حمد و تسبیح میں مصروف رہتے ہیں)۔ پس انسانوں کے لئے بھی بہترین وظیفہ اور مقدس ترین شغل یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اور سارے عالم کے خالق و پروردگار کی تسبیح کریں رسول اللہ ﷺ نے اسی ترغیب کے لئے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ ایک کلمہ سبحان اللہ میزان عمل کو بھر دیتا ہے اور اس سبھان اللہ کے ساتھ الحمدللہ بھی مل جائے تو ان دونوں کا نور زمین و آسمان کی ساری فضاؤں کو معمور و منور کر دیتا ہے۔ " سبحان الله " سے میزان اعمال کا بھر جانا اور " سبحان الله والحمدلله " سے آسمان و زمین کا معمور ہو جانا یہ ان حقائق میں سے ہے جن کے ادراک کا حاسہ یہاں ہم کو نہیں دیا گیا۔ ہاں اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں پر اس قسم کی حقیقتوں کو کبھی کبھی یہاں بھی منکشف فرما دیتا ہے، ہم عوام کا حصہ یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بیان فرمائی ہوئی ان حقیقتوں پر ایمان لائیں، انکا یقین کریں اور ان سے عمل کا فائدہ اٹھائیں۔ حمد و تسبیح کی اس فضیلت اور ترغیب کے بعد رسول اللہ ﷺ نے نماز کے بارے میں فرمایا ہے کہ " وہ نور ہے " اس دنیا میں نماز کی اس خصوصیت کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ اس کی برکت سے قلب میں ایک نور پیدا ہوتا ہے جس کو اللہ کے وہ بندے خود محسوس کرتے ہیں جن کی نمازیں حقیقی نمازیں ہیں پھر اسی نور کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ آدمی فواحش و منکرات سے بچتا ہوا چلتا ہے اسی کو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے " اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ " (بلا شبہ نماز میں یہ خاصیت ہے کہ وہ آدمی کو فواحش و منکرات سے روکتی ہے) اور آخرت کی منزلوں میں نماز کی اس نورانیت کا ظہور اس طرح ہو گا کہ وہاں کی اندھیریوں میں نماز روشنی اور اجالا بن کر نمازی کے ساتھ ہو گی۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ " نُوْرُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ بِاَيْمَانِهِمْ " (اللہ کے نیک صالح بندوں کے آگے آگے اور داہنی جانب ان کے اعمال کا نور دوڑتا ہو گا) اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صدقے کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ دلیل و برہان ہے اس دنیا میں صدقے کے برہان ہونے کا مطلب بظاہر یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اس امر کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ صدقہ کرنے والا بندہ مومن و مسلم ہے، اگر دل میں ایمان نہ ہو تو اپنی کمائی کا صدقہ کرنا آسان نہیں ہے۔ " گر زر طلبی سخن درین است " اور آخرت میں اس خصوصیت کا ظہور اس طرح ہو گا کہ صدقہ کرنے والے مخلص بندے کے صدقے کو اس کے ایمان اور اس کی خدا پرستی اور نشانی مان کر اس کو انعامات سے نوازا جائے گا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صبر کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ " ضیاء " یعنی روشنی اور اجالا ہے بعض حضرات نے نماز اور صدقہ کی مناسبت سے یہاں لفظ صبر سے مراد روزہ لیا ہے، لیکن ناچیز کے نزدیک راجح یہ ہے کہ صبر یہاں اپنے اصل وسیع معنی ہی میں استعمال ہوا ہے قرآن و حدیث کی زبان میں صبر کے اصل معنی ہیں " اللہ کے حکم کے تحت نفس کی خواہشات کو دبانا اور اس راہ میں تلخیاں اور ناگواریاں برداشت کرتے رہنا " اس لحاظ سے صبر گویا پوری دینی زندگی کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور اس میں نماز، صدقہ، روزہ، حج اور جہاد اور ان کے علاوہ اللہ کے لئے اور دین کے احکام کی پابندی میں ہر قسم کی تکلیفیں برداشت کرنا اور اپنی نفسانی خواہشات کو دبائے رکھنا، سب ہی اس کے مفہوم میں داخل ہے اور اسی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ یہ صبر " ضیاء " ہے قرآن مجید میں چاند کی روشنی " نور " اور سورج کی روشنی کو " ضیاء " فرمایا گیا ہے " هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً وَّ الْقَمَرَ " (یونس ۵: ۱۰) اس لحاظ سے صبر اور نماز سے پیدا ہونے والی روشنیوں میں نسبت ہو گی جو سورج اور چاند میں ہے، واللہ تعالیٰ اعلم۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے قرآن مجید کے بارے میں فرمایا ہے کہ یا تو وہ تمہارے واسطے اور تمہارے حق میں دلیل یا تمہارے خلاف! ...... مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کا ہدایت نامہ ہے اب اگر تمہارا تعلق اور رویہ اس کے ساتھ عظمت و احترام اور اتباع کا ہو گا جیسا کہ ایک صاحب ایمان کا ہونا چاہئے تو وہ تمہارے لئے شاہد و دلیل بنے گا اور اگر تمہارا رویہ اس کے برخلاف ہو گا تو پھر اس کی شہادت تمہارے خلاف ہو گی۔ ان تنبیہات و ترغیبات کے بعد رسول اللہ ﷺ نے آخرت میں ارشاد فرمایا ہے کہ " اس دنیا کا ہر انسان خواہ وہ کسی حال اور کسی مشغلہ میں زندگی گزار رہا ہو وہ روزانہ اپنے نفس اور اپنی جان کا سودا کرتا ہے، پھر یا تو وہ اس کو نجات دلانے والا ہے یا ہلاک کرنے والا ہے "۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی ایک مسلسل تجارت اور سودا گری ہے، اگر وہ اللہ کی بندگی اور رضا طلبی والی زندگی گزار رہا ہے تو اپنی ذات کے لئے بڑی اچھی کمائی کر رہا ہے اور اس کی نجات کا سامان فراہم کر رہا ہے اور اگر اس کے برعکس وہ نفس پرستی اور خدا فراموشی کی زندگی گزار رہا ہے تو وہ اپنی تباہی اور بربادی کما رہا ہے اور اپنی دوزخ بنا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ان حقیقتوں کا یقین نصیب فرمائے اور رسول اللہ ﷺ کی ان ترغیبات و تنبیہات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔
Top