معارف الحدیث - کتاب الطہارت - حدیث نمبر 407
عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : قِيلَ لَهُ : قَدْ عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى الْخِرَاءَةَ قَالَ : فَقَالَ : أَجَلْ « لَقَدْ نَهَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ لِغَائِطٍ ، أَوْ بَوْلٍ ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِالْيَمِينِ ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ أَوْ بِعَظْمٍ » (رواه مسلم)
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، بیان فرماتے ہیں کہ (بعض مشرکوں کی طرف سے تمسخر اور طنز کے طور پر) ان سے کہا گیا کہ تمہارے پیغمبر ﷺ نے تو تم لوگوں کو ساری ہی باتیں سکھائی ہیں۔ یہاں تک کہ پاخانہ پھرنے کا طریقہ بھی! حضرت سلمان نے ان سے کہا ہاں بے شک (انہوں نے ہم کو سب ہی کچھ سکھایا ہے اور استنجے کے متعلق بھی ضروری ہدایتیں دی ہیں۔ چنانچہ) انھوں نے ہم کو اس سے منع فرمایا ہے کہ پاخانہ یا پیشاب کے وقت ہم قبلہ کی طرف رخ کریں یا یہ کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجا کریں یا یہ کہ ہم استنجے میں تین پتھروں سے کم استعمال کریں یا یہ کہ ہم استنجا کریں (اونٹ، گھوڑے یا بیل وغیرہ) کسی چوپائے کے فضلے یا ہڈی سے)۔ (صحیح مسلم)

تشریح
جس طرح کھانا پینا انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے اسی طرح پاخانہ پیشاب بھی ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ نبی برحق حضرت محمد ﷺ نے جس طرح زندگی کے دوسرے کاموں اور شعبوں میں ہدایات دی ہیں اسی طرح پاخانہ و پیشاب اور طہارت و استنجا کے بارے میں بھی بتایا ہے کہ یہ مناسب ہے اور یہ نامناسب، یہ درست ہے، اور یہ نادرست .....۔ مندجہ بالا دونوں حدیثوں میں رسول اللہ ﷺ نے جو ہدایات اس باب میں دی ہیں وہ چار ہیں۔ ۱۔ ایک یہ کہ پاخانہ کے لئے اس طرح بیٹھا جائے کہ قبلے کی طرف نہ منہ ہو نہ پیٹھ۔ یہ قبلے کے ادب واحترام کا تقاضا ہے۔ ہر مہذب آدمی جس کو لطیف اور روحانی حقیقتوں کا کچھ شعور و احساس ہو۔ پیشاب یا پاخانے کے وقت کسی مقدس اور محترم چیز کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے بیٹھنا بے ادبی اور گنوار ہپن سمجھتا ہے۔ ۲۔ دوسری ہدایت آپ ﷺ نے یہ دی کہ داہنا ہاتھ جو عام طور پر کھانے پینے، لکھنے پڑھنے، لینے دینے وغیرہ سارے کاموں میں استعمال ہوتا ہے اور جس کو ہمارے پیدا کرنے والے نے پیدائشی طور پر بائیں ہاتھ کے مقابلے میں زیادہ صلاحیت اور خاص فوقیت بخشی ہے اس کو استنجے کی گندگی کی صفائی کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔ یہ بات بھی ایسی ہے کہ ہر مہذب آدمی جس کو انسانی شرف کا کچھ شعور و احساس ہے، اپنے بچوں کو یہ بات سکھانی ضروری سمجھتا ہے۔ ۳۔ تیسری ہدایت آپ ﷺ نے یہ دی ہے کہ استنجے میں صفائی کے لئے کم سے کم تین پتھر استعمال کرنے چاہئیں، کیونکہ عام حال یہی ہے کہ تین سے کم میں پوری صفائی نہیں ہوتی۔ پس اگر کوئی شخص محسوس کرے کہ اس کو صفائی کے لئے تین سے زیادہ پتھروں یا ڈھیلوں کے استعمال کرنے کی ضرورت ہے تو اپنی ضرورت کے مطابق زیادہ استعمال کرے۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ حدیثوں میں استنجے کے لئے خاص پتھر کا ذکر اس لئے آتا ہے کہ عرب میں پتھر کے ٹکڑے ہی اس مقصد کے لئے استعمال ہوتے تھے، ورنہ پتھر کی کوئی خصوصیت نہیںہے۔ مٹی اور اسی طرح ہر ایسی پاک چیز سے یہ کام لیا جا سکتا ہے جس سے صفائی کا مقصد حاصل ہو سکتا ہو اس کا استعمال اس کام کے لئے نامناسب نہ ہو۔ ۴۔ چوتھی ہدایت آپ ﷺ نے اس سلسلے میں یہ دی کہ کسی جانور کی گری پڑی ہڈی سے اور اسی طرح کسی جانور کے خشک فضلے سے یعنی لید وغیرہ سے استنجا نہ کیا جائے۔ کیوں کہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے بعض لوگ ان چیزوں سے بگھی استنجا کر لیا کرتے تھے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے صراحۃً اس سے منع فرما دیا۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی چیزوں سے استنجا کرنا سلیم الفطرت اور صاحب تمیز آدمی کے نزدیک بڑے گنوار پن کی بات ہے۔
Top