معارف الحدیث - کتاب الطہارت - حدیث نمبر 409
عَنْ أَبِىْ أَيُّوبَ ، وَجَابِرُ ، وَأَنَسُ ، أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ {فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ} قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَثْنَى عَلَيْكُمْ فِي الطُّهُورِ ، فَمَا طُهُورُكُمْ؟ » قَالُوا : نَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ ، وَنَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ ، وَنَسْتَنْجِي بِالْمَاءِ. قَالَ : « فَهُوَ ذَاكَ ، فَعَلَيْكُمُوهُ » (رواه ابن ماجه)
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت جابر اور حضرت انس ؓ سے روایت ہے تینوں حضرات بیان فرماتے ہیں کہ مسجد قبا کے بارے میں جب (سورہ توبہ) کی یہ آیت نازل ہوئی " فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ " (اس مسجد میں ہمارے ایسے بندے ہیں جو پاکیزگی پسند کرتے ہیں اور اللہ ایسے پاکیزگی پسند لوگوں سے محبت کرتا ہے) تو رسول اللہ ﷺ نے (اس مسجد میں نمازیں پڑھنے والے اور اس کو آباد کرنے والے انصار سے) فرمایا۔ اے گروہ انصار اللہ تعالیٰ نے طہارت و پاکیزگی کے بارے میں تمہاری تعریف فرمائی ہے تو وہ تمہاری کیا صفائی اور پاکیزگی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ (طہارت و پاکیزگی کی کوئی خاص بات اس کے سوا تو ہم اپنے میں نہیں پاتے) کہ نماز کے لئے وضو کرتے ہیں، جنابت کا غسل کرتے ہیں اور پانی سے استنجا کرتے ہیں (یعنی صرف پتھر وغیرہ کے استعمال پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ بعد میں پانی سے بھی استنجا کرتے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا: بس یہی بات ہے، پس تم اس کو اپنے اوپر لازم کر لو۔ (سنن ابن ماجہ)

تشریح
عرب کے بہت سے لوگ صرف ڈھیلے پتھر سے استنجا کرنے پر اکتفا کرتے تھے، اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ (موٹی جھوٹی غذا اور ہاضمے کی درستی کی وجہ سے) ان لوگوں کو اجابت اونٹ کی مینگنیوں کی طرح خشک ہوتی تھی اس لئے استنجے میں ان کو پانی کے استعمال کی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی تھی۔ اور پتھر کے استعمال پر اکتفا کر لیتے تھے لیکن انصار کی عادت پانی کے استعمال کی بھی تھی، قرآن مجید میں ان کی اس پاکیزگی پسندی کی تحسین و تعریف نازل ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو ہدایت فرمائی کہ وہ اس کو اپنے اوپر لازم کر لیں ..... اور خود آپ کا طرز عمل تو یہ تھا ہی ..... الغرض قرآن مجید نے اور رسول اللہ ﷺ کے ارشاد اور طرز عمل نے امت مسلمہ کو ہداسیت دی کہ اگر بالفرض کسی کا حال یہ ہو کہ اجابت کی خشکی کی وجہ سے ڈھیلے، پتھر وغیرہ کا استعمال کافی ہو، تب بھی وہ پانی سے استنجا کرے اور ہاتھ کو مٹی وغیرہ سے مانجھے۔ پاکیزگی پسندی کا تقاضا یہی ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہی طریقہ پسند ہے۔
Top