معارف الحدیث - کتاب الطہارت - حدیث نمبر 433
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ : قَصُّ الشَّارِبِ ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ ، وَالسِّوَاكُ ، وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ " قَالَ زَكَرِيَّا : قَالَ مُصْعَبٌ : وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ. (رواه مسلم)
مسواک سنت انبیاء اور تقاضائے فطرت
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ دس چیزیں ہیں جو امور فطرت میں سے ہیں۔ مونچھوں کا ترشوانا، داڑھی کا چھوڑنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی لے کر اس کی صفائی کرنا، ناخن ترشوانا، انگلیوں کے جوڑوں کو (جن میں اکثر میل کچیل رہ جاتاہے اہتمام سے) دھونا، بغل کے بال لینا، موئے زیر ناف کی صفائی کرنا، اور پانی سے استنجا کرنا۔ حدیث کے راوی زکریا کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ مصعب نے بس یہی نو چیزیں ذکر کیں اور فرمایا کہ دسویں چیز بھول گیا ہوں، اور میرا گمان یہی ہے کہ وہ کلی کرنا ہے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں ان دس چیزوں کو " مِنَ الْفِطْرَةِ " یعنی امور فطرت میں سے کہا گیا ہے۔ بعض شارحین حدیث کی رائے یہ ہے کہ الفطرۃ سے مراد یہاں سنت انبیاء یعنی پیغمبروں کا طریقہ ہے اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اسی حدیث کی مستخرج ابی عوانہ کی روایت میں فظرۃ کی جگہ سنت کا لفظ ہے، یعنی اس میں " عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ " کی بجائے " عَشْرٌ مِنَ السُّنَّةِ " کے الفاظ ہیں، ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں انبیاء علیہم السلام کے طریقہ کو الفطرۃ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ فطرت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ اس تشریح کی بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ انبیاء علیہم السلام نے جس طریقہ پر خود زندگی گزاری اور اپنی اپنی امتوں کو جس پر چلنے کی ہدایت کی اس میں یہ دس باتیں شامل تھیں۔ گویا یہ دس چیزیں انبیاء علیہم السلام کی متفقہ تعلیم اور ان کے مشترکہ معمولات سے ہیں۔ بعض شارحین نے الفطرۃ سے دین فطرت یعنی دین اسلام مراد لیا ہے۔ قرآن مجید میں دین کو فطرت کہا گیا ہے، ارشاد ہے " فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا١ؕ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا١ؕ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ " (1) (الروم ۳۰: ۳۰) اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ دس چیزیں دین فطرت یعنی اسلام کے اجزاء یا احکام میں سے ہیں۔ اور بعض شارحین نے الفطرۃ سے انسان کی اصل فطرت و جبلت ہی مراد لی ہے اس تشریح کی بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ دس چیزیں انسان کی اصل فطرت کا تقاضا ہیں جو اللہ نے اس کی بنائی ہے۔ گویا جس طرح انسان کی اصل فطرت یہ ہے کہ وہ ایمان اور نیکی اور طہارت و پاکیزگی کو پسند کرتا ہے اور کفر اور فواحش و منکرات اور گندگی و ناپاکی کو ناپسند کرتا ہے اسی طرح مذکورہ بالا دس چیزیں ایسی ہیں کہ انسانی فطرت (اگر کسی خارجی اثر سے ماؤف اور فاسد نہ ہو چکی ہو) تو ان کو پسند ہی کرتی ہے اور حقیقت شناسوں کو یہ بات معلوم اور مسلم ہے کہ انبیاء علیہم السلام جو دین اور زندگی کا طریقہ لے کر آتے ہیں وہ دراصل انسانی فطرت کے تقاضوں ہی کی مستند اور منضبط تشریح ہوتی ہے۔ اس تفصیل سے خود بخود معلوم ہو جاتا ہے کہ حدیث کے لفظ الفطرۃ کا مطلب خواہ سنت انبیاء ہو خواہ دین فطرت اسلام ہو، اور خواہ انسان کی اصل فطرت و جبلت ہو، حدیث کا مدعا تینوں صورتوں میں ایک ہی ہو گا اور وہ یہ کہ دس چیزیں انبیاء علیہم السلام کے لائے ہوئے اس متفقہ طریقہ زندگی اور اس دین کے اجزاء و احکام میں سے ہیں، جو دراصل انسان کی اصل فطرت و جبلت کا تقاضا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں اپنے خاص حکیمانہ طرز پر اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے جو چند سطریں لکھی ہیں ان کا خلاصہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں فرماتے ہیں: " یہ دس عملی باتیں جو دراصل طہارت و نظافت کے بات سے تعلق رکھتی ہیں، ملت حنفیہ کے مونسس و مورث حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منقول ہیں۔ اور ابراہیمی طریقہ پر چلنے والی حنیفی امتوں میں عام طور سے ان کا رواج رہا ہے اور ان پر ان کا عقیدہ بھی رہا ہے۔ قرنہا قرن تک وہ ان اعمال کی پابندی کرتے ہوئے جیتے اور مرتے رہے ہیں، اسی لئے نا کو فطرت کہا گیا ہے اور یہ ملت حنیفی کے شعائر ہیں۔ اور ہر ملت کے لئے ضروری ہے کہ اس کے کچھ مقرر و معلوم شعائر ہوں اور وہ ایسے اعلانیہ ہوں جن سے اس ملت کی فرمانبرداری اور نافرمانی احساس اور مشاہدہ کی گرفت میں آ سکے، اور یہ بھی قرین حکمت ہے کہ شعائر ایسی چیزیں ہوں جو نادر الوقوع نہ ہوں اور ان میں معتد بہ فوائد ہوں اور لوگوں کے ذہن ان کو پوری طرح قبول کریں اور ان دس چیزوں میں یہ باتیں موجود ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لئے ان چند باتوں پر غور کرنا چاہئے! جسم انسانی کے بعض حصوں میں پیدا ہونے والے بالوں کے بڑھنے سے پاکیزگی پسند اور لطیف مزاج آدمی کی سلیم فطرت اسی طرح منقبض اور مکدر ہوتی ہے جس طرح کہ حدث سے یعنی کسی گندگی کے جسم سے خارج ہونے سے ہوا کرتی ہے۔ بغل میں اور ناف کے نیچے پیدا ہونے والے بالوں کا حال یہی ہے۔ اسی لیے ان کی صفائی سے سلیم الفطرت آدمی اپنے قلب و روح میں ایک نشاط اور انشراح کی کیفیت محسوس کرتا ہے جیسے کہ یہ اس کی فطرت کا خاص تقاضا ہے۔ اور بالکل یہیحال نخنوں کا بھی ہے۔ اور ڈاڑھی کی نوعیت یہ ہے کہ اس سے چھوٹے اور بڑے کی تمیز ہوتی ہے اور وہ مردوں کے لئے شرف اور جمال ہے اور اسی سے ان کی مردانہ ہیئت کی تکمیل ہوتی ہے اور وہ سنت انبیاء ہے۔ اس لئے اس کا رکھنا ضروری ہے (۱) اور اس کا صاف کرنا مجوس و ہنود وغیرہ اکثر غیر مسلم قوموں کا طریقہ ہے۔ نیز چونکہ بازاری قسم کے اور نیچی سطح کے لوگ عموماً ڈاڑھیاں نہیں رکھتے اس لئے ڈاڑھیاں نہ رکھنا گویا اپنے کو ان ہی کی صفوں میں شامل کرنا ہے۔ اور مونچھوں کے بڑھانے اور لمبا رکھنے میں کھلا ہوا ضرر یہ ہے کہ منہ تک بڑھی ہوئی مونچھوں میں کھانے پینے کی چیزیں لگ جاتی ہیں اور ناک سے خارج ہونے والی رطوبت کا راستہ بھی کا راستہ بھی وہی ہے اس لئے صفائی اور پاکیزگی کا تقاضا یہی ہے کہ مونچھیں زیادہ بڑی نہ ہونے پائیں اس واسطے مونچھوں کے ترشوانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور کلی اور پانی کے ذریعہ ناک کی صفائی اور مسواک اور پانی سے استنجا اور اہتمام سے انگلیوں کے ان جوڑوں کو دھونا جن میں میل کچیل رہ جاتا ہے، صفائی اورپاکیزگی کے نقطہ نظر سے ان سب چیزوں کی ضرورت و اہمیت کسی وضاحت کی محتاج نہیں "۔ بعض اکابر علماء نے فرمایا ہے کہ اس حدیث سے یہ اصول معلوم ہو گیا کہ جسم کی صفائی اور اپنی ہیئت اور صورت کی درستی اور ایسی ہر چیز کا ازالہ اور اس سے اجتناب جس سے گھن آئے اور کراہیت پیدا ہو احکام فطرت میں سے ہے اور طریقہ انبیاء ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صورت کی تحسین کو اپنا خاص انعام و احسان بتلایا ہے۔ وَّ صَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ اس حدیث کو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ان کے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے روایت کیا ہے، ان سے روایت کرنے والے طلق بن حبیب ہیں۔ اور ان سے روایت کرنے والے مصعب بن شیبہ ہیں۔ ان کے شاگرد زکریا بن ابی زائدہ ہیں۔ ان ہی زکریا نے اپنے اپنے شیخ مصعب سے یہ حدیث روایت کی ہے جس مین انہوں نے دس چیزوں میں سے نو کو و ثوق سے ذکر کیا اور دسویں کے متعلق بتلایا کہ وہ مجھے اچھی طرح یاد نہیں رہی، البتہ میرا خیال ہے کہ وہ مضمضہ (کلی) کرنا تھا۔
Top