معارف الحدیث - کتاب الطہارت - حدیث نمبر 439
عَنْ عُثْمَانَ أَنَّهُ تَوَضَّأَ فَأَفْرَغَ عَلَى يَدَيْهِ ثَلاَثًا ، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاَثًا ، ثُمَّ غَسَلَ يَدَهُ اليُمْنَى إِلَى المَرْفِقِ ثَلاَثًا ، ثُمَّ غَسَلَ يَدَهُ اليُسْرَى إِلَى المَرْفِقِ ثَلاَثًا ، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَهُ اليُمْنَى ثَلاَثًا ، ثُمَّ اليُسْرَى ثَلاَثًا ، ثُمَّ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ نَحْوَ وَضُوئِي هَذَا ثُمَّ قَالَ : « مَنْ تَوَضَّأَ وُضُوئِي هَذَا ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ لاَ يُحَدِّثُ نَفْسَهُ فِيهِمَا بِشَيْءٍ ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ » (رواه البخارى ومسلم واللفظ للبخارى)
وضو کا طریقہ
حضرت عثمان ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن اس طرح وضو فرمایا کہ پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر تین دفعہ پانی ڈالا پھر کلی کی اور ناک میں پانی لے کر اس کو نکالا اور ناک کی صفائی کی پھر تین دفعہ اپنا پورا چہرہ دھویا۔ اس کے بعد داہنا ہاتھ کہنی تک تین دفعہ دھویا۔ پھر اسی طرح بایاں ہاتھ کہنی تک تین دفعہ دھویا، اس کے بعد سر کا مسح کیا، پھر داہنا پاؤں تین دفعہ دھویا، پھر اسی طرح بایاں پاؤں تین دفعہ دھویا۔ (اس طرح پورا وضو کرنے کے بعد) حضرت عثمان ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے بالکل میرے اس وضو کی طرح وضو فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ جس نے میرے وضو کے مطابق وضو کیا پھر دو رکعت نماز (دل کی پوری توجہ کے ساتھ) ایسی پڑھی جو حدیث نفس سے خالی رہی (یعنی دل میں ادھر ادھر کی باتیں نہیں سوچیں) تو اس کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو گئے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت عثمان ؓ نے اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے وضو کا جو طریقہ بتلایا ہے بلکہ عملاً کر کے دکھایا ہے، یہی وضو کا افضل اور مسنون طریقہ ہے البتہ اس میں کلی اور پانی سے ناک کی صفائی سے متعلق یہ نہیں بیا کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے یہ کتنے دفعہ کیا۔ لیکن بعض دوسری روایتوں میں تین تین دفعہ کی تصریح ہے۔ (۱) آگے حدیث میں جو دو رکعتیں خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے، یہ ضروری نہیں کہ وہ نفل ہی ہوں، بلکہ اگر کسی کو مسنون طریقہ پر وضو کر کے کوئی فرض یا سنت نماز بھی ایسی نصیب ہو گئی جو حدیث نفس سے یعنی ادھر ادھر کے خیالات سے خالی رہی تو ان شاء اللہ حدیث کی موعود مغفرت اس کو بھی حاصل ہو گی۔ شارحین حدیث اور عارفین نے لکھا ہے کہ حدیث نفس یہ ہے کہ ادھر ادھر کا کوئی خیال ذہن میں آئے اور دل اس میں مشغول ہو جائے، لیکن اگر کوئی خطرہ دل میں گزرے اور دل اس میں مشغول نہ ہو بلکہ اس کو ہٹانے اور دفع کرنے کی کوشش کرے تو وہ مضر نہیں ہے اور یہ چیز کا ملین کو بھی پیش آتی ہے۔
Top