معارف الحدیث - کتاب الطہارت - حدیث نمبر 461
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ تَرَكَ مَوْضِعَ شَعْرَةٍ مِنْ جَنَابَةٍ لَمْ يَغْسِلْهَا فُعِلَ بِهَا كَذَا وَكَذَا مِنَ النَّارِ » قَال عَلِيٌّ : فَمِنْ ثَمَّ عَادَيْتُ رَأْسِي فَمِنْ ثَمَّ عَادَيْتُ رَأْسِي ثَلَاثًا. (رواه ابوداؤد واحمد والدارمى الا انهما لم يكررا فَمِنْ ثَمَّ عَادَيْتُ رَأْسِي)
غسل جنابت کا طریقہ اور اس کے آداب
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے غسل جنابت میں ایک بال بھر بھی جگہ دھونے سے چھوڑ دی تو اس کو دوزخ کا ایسا ایسا عذاب دیا جائے گا۔ حدیث کے راوی حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے اس ارشاد ہی کی وجہ سے میں اپنے سر کے بالوں کا دشمن بن گیا (یعنی میں نے معمول بنا لیا، کہ جب ذرا بڑھے، میں نے ان کا صفایا کر دیا) ابو داؤد کی روایت کے مطابق یہ جملہ آپ ﷺ نے تین دفعہ فرمایا۔ (سنن ابی داؤد، مسند احمد، مسند دارمی)

تشریح
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ غسل جنابت میں سارے جسم کا اس طرح دھویا جانا ضروری ہے کہ ایک بال بھر جگہ بھی دھونے سے باقی نہ رہ جائے۔ بعض شارحین نے لکھا ہے کہ غسل کی سہولت کی وجہ سے حضرت علی مرتضیٰ ؓ نے سر کے بال صاف کرانے کا اپنا جو معمول بنا لیا تھا اس سے معلوم ہوا کہ اس مقصد سے سر منڈانے کا طریقہ بھی جائز اور مستحسن ہے۔ اگرچہ اولی سر پر بال رکھنے ہی کا طریقہ ہے، جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ کا اور باقی خلفائے راشدین کا معمول تھا۔
Top