معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 476
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، قَالَ : أَوْصَانِي خَلِيلِي أَنْ : « لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا ، وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ ، وَلَا تَتْرُكْ صَلَاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا ، فَمَنْ تَرَكَهَا مُتَعَمِّدًا ، فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ ، وَلَا تَشْرَبِ الْخَمْرَ ، فَإِنَّهَا مِفْتَاحُ كُلِّ شَرٍّ » (رواه ابن ماجه)
نماز ترک کرنا ایمان کے منافی اور کافرانہ عمل ہے
حضرت ابو الدرداء ؓ سے روایت ہے کہ میرے خلیل و محبوب ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ اللہ کے ساتھ کبھی کسی چیز کو شریک نہ کرنا اگرچہ تمہارے ٹکڑے کر دئیے جائیں اور تمہیں آگ میں بھون دیا جائے، اور خبردار کبھی بالارادہ نماز نہ چھوڑنا، کیوں کہ جس نے دیدہ و دانستہ اور عمداً نماز چھوڑ دی تو اس کے بارہ میں وہ ذمہ داری ختم ہو گئی جو اللہ کی طرف سے اس کے وفادار اور صاحب ایمان بندوں کے لیے ہے، اور خبردار شراب کبھی نہ پینا کیوں کہ وہ ہر برائی کی کنجی ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

تشریح
جس طرح ہر حکومت پر اس کی رعایا کے کچھ حقوق ہوتے ہیں، اور رعایا جب تک بغاوت جیسا کوئی سنگین جرم نہ کرے ان حقوق کی مستحق سمجھی جاتی ہے، اسی طرح مالک الملک حق تعالیٰ شانہ نے تمام ایمان والوں اور دین اسلام قبول کرنے والوں کے لیے کچھ خاص احسانات و انعامات کی ذمہ داری محض اپنے لطف و کرم سے لے لی جاتی ہے (جس کا ظہور ان شاء اللہ آخرت میں ہو گا) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو الدرداء ؓ کو مخاطب کر کے بتا دیا ہے کہ دیدہ و دانستہ اور بالارادہ نماز چھوڑ دینا دوسرے تمام گناہوں کی طرح صرف ایک گناہ نہیں ہے بلکہ باغیانہ قسم کی ایک سرکشی ہے جس کے بعد وہ شخص رب کریم کی عنایت کا مستحق نہیں رہتا اور رحمت خداوندی اس سے بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ اسی مضمون کی ایک حدیث بعض دوسری کتابوں میں حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی روایت سے بھی ذکر کی گئی ہے، اس میں رسول اللہ ﷺ نے نماز کے بارہ میں قریب قریب انہی الفاظ میں تاکید و تنبیہ فرمائی ہے، لیکن اس کے آخری الفاظ تارک نماز کے بارہ میں یہ ہے: فَمَنْ تَرَكَهَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْمِلَّةِ جس نے دیدہ و دانستہ اور عمداً نماز چھوڑ دی تووہ ہماری ملت سے خارج ہو گیا۔ (رواہ الطبرانی، الترغیب للمنذری) ان حدیثوں میں ترک نماز کو کفریا ملت سے خروج اسی بناء پر فرمایا ہے کہ نماز ایمان کی ایسی اہم نشانی اور اسلام کا ایسا خاص الخاص شعار ہے کہ اس کو چھوڑ دینا بظاہر اس بات کی علامت ہے کہ اس شخص کو اللہ و رسول سے اور اسلام سے تعلق نہیں رہا اور اس نے اپنے کو ملت اسلامیہ سے الگ کر لیا ہے۔ خاص کر رسول اللہ ﷺ کے عہد سعادت میں چونکہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان ہونے کے بعد تارک نماز بھی ہو سکتا ہے اس لئے اس دور میں کسی کا تاررک نماز ہونا اس کے مسلمان نہ ہونے کی عام نشانی تھی۔ اور اس عاجز کا خیال ہے کہ جلیل القدر تابعی عبد اللہ بن شفیق نے صحابہ کرام کے بارے میں جو یہ فرمایا ہے کہ: كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الْاَعْمَالِ تَرْكَهُ كُفْرًا غَيْرَ الصَّلَاةِ. رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کرام نماز کے سوا کسی عمل کے ترک کرنے کو بھی کفر نہیں سمجھتے تھے۔ (مشکوٰۃ بحوالہ جامع ترمذی) تو اس عاجز کے نزدیک اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ صحابہ کرام دین کے دوسرے ارکان و اعمال مثلاً روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد اور اسی طرح اخلاق و معاملات وغیرہ ابواب کے احکام میں کوتاہی کرنے کو تو بس گناہ اور معصیت سمجھتے تھے، لیکن نماز چونکہ ایمان کی نشانی اور اس کا عملی ثبوت ہے اور ملت اسلامیہ کا خاص شعار ہے، اس لیے اس کے ترک کو وہ دین اسلام بے تعلقی اور اسلامی ملت سے خروج کی علامت سمجھتے تھے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ان حدیثوں سے امام احمد بن حنبلؒ اور بعض دوسرے اکابر امت نے تو یہ سمجھا ہے کہ نماز چھوڑ دینے سے آدمی قطعاً کافر اور مرتد ہو جاتا ہے اور اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا حتی کہ اگر وہ اسی حال میں مر جائے تو اس کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ بہر حال اس کے احکام وہی ہوں گے جو مرتد کے ہوتے ہیں۔ گویا ان حضرات کے نزدیک کسی مسلمان کا نماز چھوڑ دینا بت یا صلیب کے سامنے سجدہ کرنے یا اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول کی شان میں گستاخی کرنے کی طرح کا ایک عمل ہے جس سے آدمی قطعاً کافر ہو جاتا ہے خواہ اس کے عقیدہ میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہو۔ لیکن۔۔۔ دوسرے اکثر ائمہ حق کی رائے یہ ہے کہ ترک نماز اگرچہ ایک کافرانہ عمل ہے، جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں، لیکن اگر کسی بدبخت نے صرف غفلت سے نماز چھوڑ دی ہے مگر اس کے دل میں نماز سے انکار اور عقیدہ میں کوئی انحراف نہیں پیدا ہوا ہے تو اگرچہ وہ دنیا و آخرت میں سخت سے سخت سزا کا مستحق ہے لیکن اسلام سے اور ملت اسلامیہ سے اس کا تعلق بالکل ٹوٹ نہیں گیا ہے اور اس پر مرتد کے احکام جاری نہیں ہو گے، ان حضرات کے نزدیک مندرجہ بالا احادیث میں ترک نماز کو جو کفر کہا گیا ہے اس کا مطلب کافرانہ عمل ہے اور اس گناہ کی انتہائی شدت اور خباثت ظاہر کرنے کےلئے یہ انداز بیان اختیار کیا گیا ہے، جس طرح کسی مضر غذا یا دوا کے لیے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ بالکل زہر ہے۔
Top