معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 477
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو بْنِ الْعَاصِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ : ذَكَرَ اَمْرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا فَقَالَ : " مَنْ حَافَظَ عَلَيْهَا؟ كَانَتْ لَهُ نُورًا ، وَبُرْهَانًا ، وَنَجَاةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، وَمَنْ لَمْ يُحَافِظْ عَلَيْهَا لَمْ يَكُنْ لَهُ نُورٌ ، وَلَا بُرْهَانٌ ، وَلَا نَجَاةٌ ، وَكَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ قَارُونَ ، وَفِرْعَوْنَ ، وَهَامَانَ ، وَأُبَيِّ بْنِ خَلَفٍ " (رواه احمد والدارمى والبيهقى فى شعب الايمان)
نماز ترک کرنا ایمان کے منافی اور کافرانہ عمل ہے
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے نماز کے بارے میں گفتگو فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو بندہ نماز اہتمام سے ادا کرے گا تو وہ قیامت کے دن اس کے واسطے نور ہو گی، (جس سے قیامت کی اندھیریوں میں اس کو روشنی ملے گی اور اس کے ایمان اور اللہ تعالیٰ سے اس کی وفاداری اور اطاعت شعاری کی نشانی) اور دلیل ہو گی، اور اس کے لیے نجات کا ذریعہ بنے گی، اور جس شخص نے نماز کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کیا (اور اس سے غفلت اور بے پروائی برتی) تو وہ اس کے واسطے نہ نور بنے گی، نہ برہان اور نہ ذریعہ نجات، اور وہ بدبخت قیامت میں قارون، فرعون، ہامان اور مشرکین مکہ کے سرغنہ) ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔ (مسند احمد، مسند دارمی، شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ نماز سے لاپرواہی وہ جرم عظیم ہے جو آدمی کو اس جہنم میں پہنچائے گا جہاں فرعون و ہامان اور قارون اور ابی بن خلف جیسے خدا کے باغی ڈالے جائیں گے۔ لیکن ظاہر ہے کہ جہنم میں جانے والے سب لوگوں کا عذاب ایک ہی درجہ کا نہ ہو گا، ایک قید خانہ میں بہت سے قیدی ہوتے ہیں اور اپنے اپنے جرائم کے مطابق ان کی سزائیں مختلف ہوتی ہیں۔ ظلمات بعضها فوق بعض
Top