معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 488
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ ، قَالَ : سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ صَلاَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : « كَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالهَاجِرَةِ ، وَالعَصْرَ وَالشَّمْسُ [ص : 118] حَيَّةٌ ، وَالمَغْرِبَ إِذَا وَجَبَتْ ، وَالعِشَاءَ إِذَا كَثُرَ النَّاسُ عَجَّلَ ، وَإِذَا قَلُّوا أَخَّرَ ، وَالصُّبْحَ بِغَلَسٍ » (رواه البخارى ومسلم)
نماز کے اوقات
حضرت حسن بن علی ؓ کے پوتے محمد بن عمرو بن حسن سے روایت ہے کہ ہم نے جابر بن عبداللہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نمازوں کے بارے میں سوال کیا۔ (یعنی یہ کہ آپ ﷺ پنجگانہ نمازیں کس وقت پڑھتے تھے) تو انہوں نے بتایا کہ ظہر کی نماز آپ ﷺ نصف النہار میں (یعنی زوال ہوتے ہی) پڑھتے تھے۔ اور عصر ایسے وقت کہ سورج بالکل زندہ ہوتا تھا، (اس کی گرمی اور روشنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا) اور مغرب اس وقت جب آفتاب غروب ہوتا، اور " عشاء (کے بارے میں معمول یہ تھا کہ) جب لوگ زیادہ تعداد میں آ جاتے تو آپ ﷺ سویرا پڑھ لیتے تھے اور لوگ کم ہوتے تو مؤخر کر کے پڑھتے تھے۔ اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت جابرؓ کی اس حدیث میں اور اس سے پہلی ابو برزہ اسلمیؓ والی حدیث میں بھی ظہر کی نماز کے بارے میں حضور ﷺ کا معمول یہ بتایا گیا ہے کہ آپ ﷺ زوال ہوتے ہی نصف النہار میں پڑھ لیا کرتے تھے، لیکن آگے آنے والی بعض دوسری حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ معمول آپ ﷺ کا گرمی کے موسم کے علاوہ تھا۔ جب گرمی سخت پڑتی تھی تو آپ ﷺ ظہر میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ گرمی کی حدت ختم ہو جائے اور وقت کچھ ٹھنڈا ہو جائے اور اسی کی آپ ﷺ نے امت کو بھی ہدایت فرمائی ہے۔
Top