معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 490
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « أَبْرِدُوا بِالظُّهْرِ ، فَإِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ » (رواه البخارى)
نماز کے اوقات
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جب گرمی سخت ہو تو ظہر کو ٹھنڈے وقت پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی شدت آتش دوزخ کے جوش سے ہے۔ (صحیح بخاری) (یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت سے بھی مروی ہے، لیکن اس میں " فَأَبْرِدُوا بِالصَّلاَةِ " کا لفظ ہے، اگرچہ مراد اس سے بھی ظہر ہی ہے)

تشریح
دنیا میں ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہین اس کے کچھ تو ظاہری اسباب ہوتے ہیں جنہیں ہم خود بھی جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں اور کچھ باطنی اسباب ہوتے ہیں جو ہمارے احساس و ادراک کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کبھی کبھی ان کی طرف اشارے فرماتے ہیں، اس حدیث میں جو فرمایا گیا ہے کہ " گرمی کی شدت آتش دوزخ کے جوش سے ہے " یہ اسی قبیل کی چیز ہے، گرمی کی شدت کا ظاہری سبب تو آفتاب ہے اور اس بات کو ہر شخص جانتا ہے اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا، لیکن عالم باطن، اور عالم غیب میں اس کا تعلق جہنم کی آگ سے بھی ہے، اور یہ ان حقائق میں سے ہے جو انبیاء علیہم السلام ہی کے ذریعہ معلوم ہو سکتے ہیں۔ دراصل ہر راحت اور لذت کا مرکز اور سرچشمہ جنت ہے، اور ہر تکلیف و مصیبت کا اصل خزانہ اور سرچشمہ جہنم ہے، اس دنیا میں جو کچھ راحت و لذت یا تکلیف و مصیبت ہے وہ وہیں کے لامحدود خزانہ کا کوئی ذرہ اور اسی اتہاہ سمندر کا کوئی قطرہ اور وہیں کی ہواؤں کا کوئی جونکا ہے، اور اس کو اس مرکز و مخزن سے خاص نسبت ہے، اسی بنیاد پر اس حدیث میں گرمی کی شدت کو جہنم کی تیزی اور اس کے جوش و خروش سے منسوب کیا گیا ہے، اور اصل مقصد بس اتنا ہے کہ گرمی کی شدت کو جہنم سے ایک خاص نسبت ہے اور وہ غضب خداوندی کا ایک مظہر ہے اور خنکی و ٹھنڈک رحمت خداوندی کی لہر ہے اس لئے جس موسم میں نصف النہار کے وقت سخت گرمی ہو اور گرمی کی شدت سے فضا جہنم بن رہی ہو تو ظہر کی نماز کچھ تاخیر کر کے ایسے وقت پڑھی جائے جب گرمی کی شدت ٹوٹ جائے وقت کچھ ٹھنڈا ہو جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
Top