معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 491
عَنْ أَنَسٍ قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ « يُصَلِّي الْعَصْرَ ، ثُمَّ يَذْهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى الْعَوَالِي فَيَأْتِي العَوَالِيَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ » (رواه البخارى ومسلم)
وقت عصر کے بارے میں آپ ﷺ کا معمول اور آپ ﷺ کی ہدایت
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ آفتاب بلند اور زندہ ہوتا تھا۔ پس عوالی (یعنی مدینہ کی بالائی آبادیوں) کی طرف جانے والا آدمی (حضور ﷺ کے ساتھ نماز عصر پڑھ کے) چلتا تھا تو وہ عوالی ایسے وقت پہنچ جاتا تھا کہ آفتاب اس وقت بھی اونچا ہوتا تھا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت انس ؓ کو اللہ تعالیٰ نے بہت طویل عمر عطا فرمائی (1)۔ پہلی صدی ہجری کے اواخر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ خلافت راشدہ کے خاتمہ کے بعد اموی حکومت کے بھی تقریباً پچاس سال انہوں نے دیکھے ہیں، ان کے زمانے میں بنو امیہ کے بعض خلفا اور امراء عصر کی نماز میں بہت تاخیر کرتے تھے، حضرت انس ؓ ان کے اس طرزِ عمل کو بہت غلط اور خلاف سنت سمجھتے تھے، اور حسب موقع اپنی اس رائے کا اظہار فرماتے تھے، اس حدیث کے بیان کرنے سے بھی ان کا مقصد یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول عصر کی نماز میں اتنی تاخیر کا نہیں تھا، آپ ﷺ ایسے وقت عصر پڑھتے تھے کہ آفتاب خوب بلند اور اپنی حرارت اور روشنی کے لحاظ سے بالکل زندہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ آپ ﷺ کے ساتھ عصر پڑھ کر اگر کوئی شخص عوالی کی طرف جاتا تو جس وقت وہ وہاں پہنچتا اس وقت بھی آفتاب بلندی پر ہوتا۔ عوالی مدینہ طیبہ کے قریب کی وہ آبادیاں کہلاتی ہیں جو بجانب مشرق تھوڑے فاصلہ پر ہیں۔ ان مین سے جو قریب ہیں وہ دو تین میل پر ہیں اور جو دور ہین وہ پانچ چھ میل پر ہیں
Top