معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 493
عَنْ أَبِىْ أَيُّوب قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَا يَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ » - أَوْ قَالَ : عَلَى الْفِطْرَةِ - مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ إِلَى أَنْ تَشْتَبِكَ النُّجُومُ ". (رواه ابوداؤد)
وقت مغرب کے بارے میں
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی، جب تک کہ مغرب کی نماز اتنی مؤخر کر کے نہ پڑھے کہ ستارے گنجان ہو جائیں۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
مغرب کی نماز رسول اللہ ﷺ عموماً اول وقت میں پڑھتے تھے، جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا، بلا کسی عذر اور مجبوری کے اس میں اتنی تاخیر کرنا کہ ستاروں کا جال آسمان پر پھیل جائے ناپسندیدہ اور مکروہ ہے، اگرچہ اس کا وقت جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا شفق غائب ہونے تک باقی رہتا ہے۔ تاہم اگر کبھی کسی اہم دینی مشغولیت کی وجہ سے مغرب میں کچھ تاخیر ہو جائے تو اس کی گنجائش ہے، صحیح بخاری میں عبداللہ بن شقیق سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے عصر کے بعد وعظ شروع فرمایا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا اور آسمان پر ستارے نکل آئے اور آپ کی بات جاری رہی، حاضرین میں سے بعض نے کہا " الصلوٰۃ الصلوٰۃ " تو حضرت ابن عباس ؓ نے ان کو ڈانٹا اور کبھی کبھی کے رسول اللہ ﷺ کے طرز عمل کا حوالہ دے کر ان کو بتلایا کہ ایسے مواقع پر تاخیر بھی کی جا سکتی ہے۔
Top