معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 498
عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ تَسَحَّرَا ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا فَرَغَا مِنْ سَحُورِهِمَا قَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ فَصَلَّى ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا لِأَنَسٍ : ‏‏‏‏ كَمْ كَانَ بَيْنَ فَرَاغِهِمَا مِنْ سَحُورِهِمَا وَدُخُولِهِمَا فِي الصَّلَاةِ؟ ، ‏‏‏‏ قَالَ : ‏‏‏‏ قَدْرِ مَا يَقْرَأُ الرَّجُلُ خَمْسِينَ آيَةً". (رواه البخارى)
وقت فجر کےبارے میں
حضرت قتادہ تابعی حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے خاص صحابی زید بن ثابت نے ایک دن ساتھ سحری کھائی، پھر جب یہ دونوں حضرات سحری سے فارغ ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور آپ ﷺ نے نماز پڑھائی (قتادہ کہتے ہیں) ہم لوگوں نے پوچھا کہ ان دونوں کے کھانے سے فارغ ہونے اور نماز شروع کرنے کے درمیان کتنا وقفہ ہوا؟ انہوں نے بتایا کہ بس اس قدر کہ کوئی آدمی جتنی دیر میں قرآن مجید کی پچاس آیتیں پڑھے۔ (صحیح بخاری)

تشریح
پچاس آیتیں پڑھنے میں صرف چند منٹ صرف ہوتے ہیں۔ اس حساب سے اس دن فجر کی نماز رسول اللہ ﷺ نے گویا صبح صادق ہوتے ہی پڑھ لی تھی۔ حضور ﷺ کی عادت اگرچہ یہی تھی کہ جر سویرے پڑھتے تھے، جیسا کہ ابھی حضرت صدیقہؓ کی حدیث سے بھی معلوم ہو چکا ہے، لیکن صبح صادق ہوتے ہی بالکل شروع وقت میں نماز پڑھ لینا آپ ﷺ کا عام طریقہ نہیں تھا، جیسا کہ ابو برزہ اسلمیؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ کی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے، اس لئے قرین قیاس یہ ہے کہ حضرت انسؓ نے جس دن کا یہ واقعہ بیان کیا ہے اس دن آپ ﷺ نے کسی خاص وجہ سے نماز بالکل شروع وقت ہی میں پڑھ لی تھی، جس طرح ہم لوگ بھی کبھی کبھی خاص حالات میں ایسا کر لیتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
Top