معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 508
عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَهُ الأَذَانَ تِسْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً ، وَالإِقَامَةَ سَبْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً. (رواه احمد والترمذى وابوداؤد والنسائى والدارمى وابن ماجه)
ابو محذورہ ؓ کو اذان کی تلقین
ترجمہ: حضرت ابو محذورہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اذان سکھائی۔ انیس کلمے اور اقامت سترہ کلمے۔ (مسند احمد، جامع ترمذی، سنن ابو داؤد، سنن نسائی، مسند دارمی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
حضرت ابو محذورہ ؓ کی اوپر والی روایت میں اذان کے پورے انیس کلمے ہیں کیوں کہ شہادت کے چاروں کلمے اس میں مکرر آئے ہیں اور اقامت میں سترہ کلمے اس طرح ہوں گے کہ شہادت کے کلمے مکرر نہ ہونے کی وجہ سے چار کلمے کم ہو جائیں گے اور " قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ " دو کلموں کا اضافہ ہو جائے گا، اس کمی اور بیش کے بعد ان کی تعداد پوری سترہ ہو جائے گی۔ ابو محذورہ کو اذان سکھانے کا یہ واقعہ شوال ۸؁ھ کا ہے جب رسول اللہ ﷺ غزوہ حنین سے فارغ ہو کر واپس آ رہے تھے۔ اس واقعہ کی تفصیل جو مختلف روایات کے جمع کرنے سے معلوم وتی ہے، دلچسپ بھی ہے اور ایمان افروز بھی۔ اس لیے اس کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب فتح مکہ سے فارغ ہو کر اپنے لشکر کے ساتھ حنین کی طرف تشریف لے گئے، جب کہ آپ ﷺ کے ساتھ ایک خاصی بڑی تعداد ان طلقا کی بھی ہو گئی تھی جن کو آپ ﷺ نے فتح مکہ کے دن ہی معافی دے کر آزاد کیا تھا، تو یہ ابو محذورہ بھی جو اس وقت ایک شوخ نوجوان تھے اور مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے اپنے ہی جیسے نوادر یار دوستوں کے ساتھ حنین کی طرف چل دئیے۔ خود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حنین سے واپس ہو رہے تھے۔ راستہ ہی میں حضور ﷺ سے ہماری ملاقات ہوئی۔ نماز کا وقت آنے پر رسول اللہ ﷺ کے مؤذن نے اذان دی۔ہم سب اس اذان سے (بلکہ اذان والے دین ہی سے) منکر و متنفر تھے اس لیے ہم سب ساتھی مذاق اور تمسخر کے طور پر اذان کی نقل کرنے لگے اور میں نے بالکل مؤذن ہی کی طرح خوب بلند آواز سے نقل کرنی شروع کی، رسول اللہ ﷺ کو آواز پہنچ گئی تو آپ ﷺ نے ہم سب کو بلوا بھیجا، ہم لا کر آپ ﷺ کے سامنے پیش کر دئیے گئے، آپ ﷺ نے فرمایا بتاؤ تم میں وہ کون ہے جس کی آواز بلند تھی۔ (ابو محذورہ کہتے ہیں کہ) میرے سب ساتھیوں نے میری طرف اشارہ کر دیا، اور بات سچی بھی تھی، آپ ﷺ نے اور سب کو تو چھوڑ دینے کا حکم دے دیا اور مجھے روک لیا اور فرمایا کھڑے ہو اور پھر اذان کہو (ابو محذورہ کا بیان ہے کہ) اس وقت میرا حال یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ سے اور آپ ﷺ نے جس اذان کے دینے کا حکم دیا تھا اس سے زیادہ مکروہ اور مبغوض میرے لیے کوئی چیز بھی نہ تھی، یعنی میرا دل (معاذ اللہ) آپ ﷺ کی نفرت اور بغض سے بھرا ہوا تھا، لیکن میں مجبور اور بے بس تھا اس لیے ناچار حکم کی تعمیل کے لیے کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے خود اذان بتانی شروع کی اور فرمایا کہو " اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ " (آخر تک بالکل اسی طرح جس طرح اوپر والی حدیث میں گزر چکی ہے۔ آگے ابو محذورہ بیان کرتے ہیں) جب میں اذان ختم کر چکا تو آپ ﷺ نے مجھے ایک تھیلی عنایت فرمائی جس میں کچھ چاندی تھی، اور میرے سر کے اگلے حصہ پر آپ ﷺ نے اپنا دستِ مبارک رکھا اور پھر آپو نے دست مبارک میرے چہرہ پر اور پھر میرے سامنے کے حصہ پر یعنی سینہ پر اور پھر قلب و جگر پر اور پھر نیچے ناف کی جگہ تک پھیرا۔ پھر مجھے یوں دعا دی " بَارَكَ اللهُ فِيكَ وَبَارَكَ اللهُ عَلَيْكَ " (اللہ تعالیٰ تیرے اندر برکت دے اور تجھ پر برکت نازل فرمائے) یہ دعا آپ ﷺ نے مجھے تین دفعہ دی (حضور ﷺ کی اس دعا اور دست مبارک کی برکت سے میرے دل سے کفر اور نفرت کی وہ لعنت دور ہو گئی اور ایمان اور محبت کی دولت مجھے نصیب ہو گئی) اور میں نے عرض کیا کہ مجھے مکہ معظمہ میں مسجد حرام کا مؤذن بنا دیجئے! آپ ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ ہم حکم دیتے ہیں اب مسجد حرام میں تم اذان دیا کرو! اس پوری تفصیل سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے شہادت کے کلمے أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اور أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ مکرر یعنی بجائے دو دو دفعہ کے چار چار دفعہ کیوں کہلوائے، غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے دل میں اس وقت تک ایمان آیا نہیں تھا، انہوں نے صرف حکم سے مجبور ہو کر اپنے اس وقت تک کے عقیدے کے بالکل خلاف اذان دینی شروع کر دی تھی اور اذان کے کلمات میں سب سے زیادہ ناگوار ان کو اس وقت شہادت کے یہی دو کلمے تھے (یعنی أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ) جب ایک دفعہ کہہ چکے تو حضور ﷺ نے فرمایا ان کلموں کو پھر دوبارہ کہو اور خوب بلند آواز سے کہو۔ اس عاجز کا خیال ہے کہ آپ ﷺ ان کی زبان سے یہ کلمے کہلوا رہے تھے اور خود اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ تھے کہ وہ ان کلموں کو اپنے اس بندے کے دل میں اتار دے، الغرض یہ بات بالکل قرین قیاس ہے کہ اس وقت کی ان کی خاص حالت کی وجہ سے آپ ﷺ نے شہادت کے یہ کلمے مکرر کہلوائے ہوں ورنہ کسی صحیح روایت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مستقل مؤذن حضرت بلالؓ کو یہ حکم دیا ہو اور وہ اذان میں شہادت کے یہ کلمے اس طرح چار چار دفعہ کہتے ہوں، اسی طرح عبداللہ بن زیدؓ کے خواب کی صحیح روایت میں بھی شہادت کے یہ کلمے دو ہی دفعہ وارد ہوئے ہیں۔ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ ابو محذورہؓ مکہ معظمہ میں ہمیشہ سی طرح اذان دیتے رہے یعنی ان کلموں کو مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق چار چار دفعہ کہتے رہے جس کو اصطلاح میں (ترجیع) کہتے ہیں جس کی وجہ غالبا یہ تھی کہ حضور ﷺ نے جس طرح ان سے اذان کہلوائی تھی اور جس کی برکت سے ان کو دین کی دولت ملی تھی وہ ایک عاشق کی طرح چاہتے تھے کہ ہو بہو وہی اذان ہمیشہ دیا کریں ورنہ یہ ضرور جانتے ہوں گے کہ حضور ﷺ کے موذن بلالؓ کس طرح اذان دیتے ہیں۔ اسی واقعہ کی روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو محذورہ کے سر کے اگلے حصے (ناصیہ) پر جہاں دست مبارک رکھا تھا وہ وہاں کے اپنے بالوں کو کبھی کٹواتے نہیں تھے، اس عاجز کا خیال ہے کہ جیسی یہ ان کی ایک عاشقانہ ادا تھی اسی طرح ان کی ایک ادا یہ بھی تھی کہ وہ ہمیشہ ترجیع کے ساتھ اذان کہتے تھے، اور بلا شبہ حضور ﷺ کو اس کا علم تھا لیکن حضور ﷺ نے منع نہیں فرمایا، اس لیے اس کے بھی جواز میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں! اور حقیقت وہی ہے جو حضرت شاہ ولی اللہؒ نے بیان فرمائی ہے کہ اذان و اقامت کے کلمات کا یہ اختلاف بس مختلف قراتوں کا سا اختلاف ہے۔ واللہ اعلم۔ اذان و اقامت میں دین کے بنیادی اصولوں کی تعلیم دعوت اذانو اقامت کے سلسلہ میں یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ بھی ناظرین کے لیے ان شاء اللہ مفید اور موجب بصیرت ہو گا کہ اگرچہ یہ دونوں چیزیں بظاہر وقت نماز کے اعلان کا ایک وسیلہ اور نماز کا بلاوا ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ایسے جامع کلمات الہام فرمائے ہیں جو دین کی روح بلکہ دین کے پورے بنیادی اصولوں کی تعلیم و دعوت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں، دین کے سلسلے مین سب سے پہلی چیز اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا مسئلہ ہے اس بارہ میں اسلام کا جو نظریہ ہے اس کے اعلان کے لیے اللہ اکبر اللہ اکبر سے بہتر اور اتنے جاندار الفاظ نہیں کئے جا سکتے، اس کے بعد نمبر آتا ہے عقیدہ توحید کا بلکہ صفات کا مسئلہ اسی سے صاف اور مکمل ہوتا ہے اس کے لیے أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ جیسا جاندار اور مؤثر کوئی دوسرا مختصر کلمہ منتخب نہیں کیا جا سکتا۔ پھر اس حقیقت کے واضح اور معلوم ہو جانے کے بعد کہ بس اللہ ہی ہمارا الہ و معبود ہے، یہ سوال فوراً سامنے آ جاتا ہے کہ اس اللہ تک پہنچنے کا راستہ یعنی اس سے بندگی کا صحیح رابطہ قائم کرنے کا طریقہ کہاں سے معلوم ہو سکے گا؟ اس جواب کے لیے أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ سے بہتر کوئی کلمہ نہیں سوچا جا سکتا، اس کے بعد حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ کے ذریعہ اس صلوۃ کی دعوت دی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی اور اس سے رابطہ قائم کرنے کا سب سے اعلیٰ ذریعہ ہے، اور اللہ کی طرف چلنے والے کا سب سے پہلا قدم بھی ہے۔ اس کے بعد حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کے ذریعہ اس حقیقت کا اعلان کیا جاتا ہے کہ یہی راستہ فلاح یعنی نجات و کامیابی کی منزل تک پہنچانے والا ہے، اور جو لوگ اس راستہ کو چھوڑ کر دوسری راہوں پر چلیں گے وہ فلاح سے محروم رہیں گے، گویا اس میں عقیدہ آخرت کا اعلان ہے اور ایسے الفاظ کے ذریعہ اعلان ہے کہ ان سے صرف عقیدہ ہی کا علم نہیں ہوتا بلکہ وہ زندگی کا سب سے اہم اور قابل فکر مسئلہ بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اور آخر میں اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کے ذریعہ پھر یہ اعلان اور پکار ہے کہ انتہائی عظمت و کبریائی والا بس اللہ ہی ہے اور وہی بلا شرکت غیرے الہ برحق ہے۔ اس لیے بس اسی کی رضا کو اپنا مطلوب و مقصود بناؤ۔ بار بار غور کیجئے کہ اذان و اقامت کے ان چند کلمات میں دین کے بنیادی اصولوں کا کس قدر جامع اعلان ہے اور کتنی جاندار اور موثر دعوت ہے۔گویا ہماری ہر مسجد سے روزانہ پانچ وقت دین کی یہ بلیغ دعوت نشر کی جاتی ہے۔ ہم مسلمان اگر اتا ہی کر لیں کہ انے ہر بچہ کو اذان یاد کرا دیں اور کسی قدر تفصیل کے ساتھ اس کا مطلب سمجھا دیں، خصوصاً أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اور أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ کا مطلب زمانہ اور ماحول کے مطابق سمجھا دیں تو ان شاء اللہ وہ کبھی کسی غیر اسلامی دعوت کا شکار نہ ہو سکے گا۔
Top